An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَمَن يَكْسِبْ خَطِيٓـَٔةً أَوْ إِثْمًۭا ثُمَّ يَرْمِ بِهِۦ بَرِيٓـًۭٔا فَقَدِ ٱحْتَمَلَ بُهْتَٰنًۭا وَإِثْمًۭا مُّبِينًۭا ﴾
“But he who commits a fault or a sin and then throws the blame therefore on an innocent person, burdens himself with the guilt of calumny and [yet another] flagrant sin.”
دنیا آزمائش کی جگہ ہے۔ یہاں ہر آدمی سے غلطي ہوسکتی ہے۔ خدا کے معاملہ میں بھی اور بندوں کے معاملہ میں بھی۔ جب کسی سے کوئی غلطی ہوجائے تو صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی غلطی پر شرمندہ ہو۔ وہ اللہ کی طرف اور زیادہ توجہ کے ساتھ دوڑے۔ وہ اللہ سے درخواست کرے کہ وہ اس کی غلطی کو معاف کردے اور آئندہ کے لیے اس کو نیکی کی توفیق دے۔ جو شخص اس طرح اللہ کی پناہ چاہے تو اللہ بھی اس کو اپنی پناہ میں لے لیتاہے۔ اللہ اس کے دینی احساس کو بیدار کرکے اس کو اس قابل بنادیتا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ محتاط ہو کر دنیا میں رہنے لگے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی جب غلطی کرے تو وہ غلطی کو ماننے کے لیے تیار نہ ہو۔ بلکہ اپنی غلطی کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش میں لگ جائے۔ وہ اپنے ساتھیوں کی حمایت سے خود ان لوگوں سے لڑنے لگے جو اس کی غلطی سے اس کو آگاہ کررہے ہیں۔ جو لوگ اپنی غلطی پر اس طرح اکڑتے ہیں اور جو لوگ ان کا ساتھ دیتے ہیں وہ خدا کے نزدیک بدترین مجرم ہیں۔ وہ اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے جن الفاظ کا سہارا لیتے ہیں وہ آخرت میں بالکل بے معنی ثابت ہوں گے اور جن حمایتیوں کے بھروسے پر وہ گھمنڈ کررہے ہیں وہ بالآخر جان لیں گے کہ وہ کچھ بھی ان کے کام آنے والے نہ تھے۔ ایک شخص کسی کا مال چرائے اور جب پکڑے جانے کا اندیشہ ہو تو اس کو دوسرے کے گھر میں رکھ کر کہے کہ فلاں نے اس کو چرایا تھا۔ ایک شخص کسی عورت کو اپنی ہوس کا نشانا بنانا چاہے اور جب وہ پاک دامن خاتون اس کا ساتھ نہ دے تو وہ جھوٹے افسانے گھڑ کر اس خاتون کو بدنام کرے۔ دو آدمی مل کر ایک کام شروع کریں۔ اس کے بعد ایک شخص کو محسوس ہو کہ اس کی ذاتی مصلحتیں مجروح ہورہی ہیں، وہ تدبیر کرکے اس کام کو بند کرادے اور اس کے بعد مشہور کرے کہ اس کے بند ہونے کی ذمہ داری فریق ثانی کے اوپر ہے۔ یہ سب اپنا جرم دوسرے کے سر ڈالنے کی کوششیں ہیں۔ مگر ایسی کوششیں صرف آدمی کے جرم کو بڑھاتی ہیں، وہ اس کو بری الذمہ ثابت نہیں کرتیں۔ اللہ کا سب سے بڑا فضل یہ ہے کہ وہ ہدایت کے دروازے کھولے۔ وہ آدمی کو سمجھائے کہ غلطی کرنے کے بعد اپنی غلطی کو مان لو، نہ کہ بحث کرکے اپنے کو صحیح ثابت کرو۔کسی سے معاملہ پڑے تو ساتھیوں کے بل پر گھمنڈ نہ کرو بلکہ اللہ سے ڈر کر تواضع کا انداز اختیار کرو۔ کسی کے خلاف کارروائی کرنے کا موقع مل جائے تو اپنے کو کامیاب سمجھ کر خوش نہ ہو بلکہ اللہ سے دعا کرو کہ وہ تم کو ظالم بننے سے بچائے۔