An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَمَن يُشَاقِقِ ٱلرَّسُولَ مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِۦ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِۦ جَهَنَّمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرًا ﴾
“But as for him who, after guidance has been vouchsafed to him, cuts himself off from the Apostle and follows a path other than that of the believers - him shall We leave unto that which he himself has chosen, and shall cause him to endure hell: and how evil a journey’s end!”
حق کی بے آمیز دعوت جب اٹھتی ہے تو وہ زمین پر خدا کا ترازو کھڑا کرنا ہوتا ہے۔ اس کی میزان میںہر آدمی اپنے کو تُلتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ حق کی دعوت ہر ایک کے اوپر سے اس کا ظاہری پردہ اتاردیتی ہے اور ہر شخص کو اس کے اس مقام پر کھڑا کردیتی ہے جہاں وہ باعتبار حقیقت تھا۔ یہ صورت حال اتنی سخت ہوتی ہے کہ لوگ چیخ اٹھتے ہیں۔ سارا ماحول داعی کے لیے ایسا بن جاتا ہے جیسے وہ انگاروں کے درمیان کھڑا ہوا ہو۔ جو لوگ دعوت حق کے ترازومیں اپنے کو بے وزن ہوتا ہوا محسوس کرتے ہیں ان کے اندر ضد اور گھمنڈ کے جذبات جاگ اٹھتے ہیں۔ وہ تیزی سے مخالفانہ رخ پر چل پڑتے ہیں۔ وہ چاہنے لگتے ہیں کہ ایسی دعوت کو مٹا دیں جو ان کی حق پرستانہ حیثیت کو مشتبہ ثابت کرتی ہو۔ ان کے لیے اپنی زبان کا استعمال یہ ہو جاتا ہے کہ وہ دعوت اور داعی کے خلاف جھوٹی باتیں پھیلائیں۔ اس کو زیر کرنے کے منصوبے بنائیں۔ وہ لوگوں کو منع کریں کہ اس کی مالي مدد نہ کرو۔ جو اللہ کے بندے اللہ کی رسّی کے گرد متحد ہورہے ہوں ان کو بدگمانیوں میں مبتلا کرکے منتشر کریں۔ اس کے برعکس، جو لوگ اپنی فطرت کو زندہ رکھے ہوئے تھے ان کو اللہ کی مدد سے یہ توفیق ملتی ہے کہ وہ اس کے آگے جھک جائیں، وہ اس کا ساتھ دیں، وہ اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنا شروع کردیں۔ ایسے لوگوں کے لیے ان کی زبان کا استعمال یہ ہوتا ہے کہ وہ کھلے طور پر سچائی کا اعتراف کرلیں۔ وہ لوگوں سے کہیں کہ یہ اللہ کا کام ہے اس میں اپنا مال اور اپنا وقت خرچ کرو۔ وہ لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ اپنی قوتوں کو نیکی اور بھلائی کے کاموں میں لگائیں۔ وہ آپس کی رنجشوں اور شکایتوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ حق کا اعتراف ان کے اندر جو نفسیات جگاتا ہے اس کا قدرتی نتیجہ ہے کہ وہ اس قسم کے تعميري کاموں میں لگ جائیں۔ اللہ کے نزدیک یہ ایک ناقابلِ معافی جرم ہے کہ حق کی دعوت کی مخالفت کی جائے اور جو لوگ حق کی دعوت کے گرد جمع ہوئے ہیں ان کو اپنی دشمنی کی آگ میں جلانے کی کوشش کی جائے۔ دوسرے اکثر گناہوں میں یہ امکان رہتا ہے کہ وہ انسان کی غفلت یا کمزوری کی وجہ سے صادر ہوئے ہوں۔ مگر دعوت حق کی مخالفت تمام تر سرکشی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اور سرکشی کسی آدمی کا وہ جرم ہے جس کو اللہ کبھی معاف نہیں کرتا، اِلاّ یہ کہ وہ اپنی غلطی کا اقرار کرے اور سرکشی سے باز آجائے۔ دین کی دعوت جب بھی اپنی بے آمیز شکل میں اٹھتی ہے تو وہ ایک خدائی کام ہوتا ہے جو خدا کی خصوصی مدد پر شروع ہوتا ہے۔ ایسے کام کی مخالفت کرنا گویا خدا کے مقابلہ میں کھڑا ہونا ہے اور کون ہے جو خدا کے مقابلہ میں کھڑا ہو کر کامیاب ہو۔