An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أُو۟لَٰٓئِكَ مَأْوَىٰهُمْ جَهَنَّمُ وَلَا يَجِدُونَ عَنْهَا مَحِيصًۭا ﴾
“Such as these have hell for their goal: and they shall find no way to escape therefrom.”
جو شخص ایک اللہ کو پکڑ لے اس کے عمل کی جڑیں خدا میں قائم ہوجاتی ہیں۔ اس سے وقتی لغزش بھی ہوتی ہے۔ مگر اس کے بعد جب وہ پلٹتا ہے تو دوبارہ وہ حقیقی سرے کو پالیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ کے سوا کہیں اور اٹکا ہوا ہو وہ گویا اس زمین سے محروم ہے جو اس کائنات میں واحد حقیقی زمین ہے۔ بظاہر اگر وہ کوئی اچھا عمل کرے تب بھی وہ خدا کے سرچشمہ سے نکلا ہوا عمل نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ ایک اوپری عمل ہوتا ہے جو معمولی جھٹکا لگتے ہی باطل ثابت ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ توحید کے ساتھ کیا ہوا عمل آخرت میں اپنا نتیجہ دکھاتا ہے اور شرک کے ساتھ کیا ہوا عمل اسی دنیا میں برباد ہو کر رہ جاتا ہے، وہ آخرت تک نہیں پہنچتا۔ اس دنیا میں آدمی کا اصلی مقابلہ شیطان سے ہے۔ تاہم شیطان کے پاس کوئی طاقت نہیں۔ وه اتنا کرسکتا ہے کہ آدمی کو لفظی وعدوں کا فریب دے اور فرضی تمناؤں میںالجھائے۔ اور اس طرح لوگوں کو حق سے دور کردے۔ شیطان کی گمراہی کی دو خاص صورتیں ہیں۔ ایک، توہم پرستی اور دوسرے، خدا کی تخلیق میں فرق کرنا۔ توہم پرستی یہ ہے کہ کسی چیز سے ایسے نتیجہ کی امید کرلی جائے جس نتیجہ کا کوئی تعلق اس سے نہ ہو۔ مثلاً خود ساختہ مفروضوں کی بنیاد پر اللہ کے سوا کسی اورچیز کو معاملات میں مؤثر مان لینا، حالاں کہ اس دنیا میں اللہ کے سوا کسی کے پاس کوئی طاقت نہیں۔ یا زندگی کو عملاً دنیا کے حصول میں لگا دینا اور آخرت کے بارے میں فرضی خوش خیالیوں کی بنا پر یہ امید قائم کرلینا کہ وہ اپنے آپ حاصل ہوجائے گی۔ شیطان کے بہکاوے کا دوسرا طریقہ اللہ کے بتائے ہوئے نقشہ کو بدلنا ہے۔ خدا نے انسان کو اس فطرت پر پیدا کیا ہے کہ وہ اپنی تمام توجہ کو اللہ کی طرف لگائے، اس فطرت کو بدلنا یہ ہے کہ انسان کی توجہات کو دوسری دوسری چیزوں کی طرف مائل کردیا جائے۔ یا کسی مقصد کے حصول کا جو طریقہ فطری طورپر مقرر کیا گیا ہے اس کو بدل کر کسی خود ساختہ طریقے سے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ کائنات کے خدائی نقشہ کی مطابقت میں انسان کو جس طرح رہنا چاہیے اس نقشہ کو ناپيد کردیا جائے۔