An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَآ أَمَانِىِّ أَهْلِ ٱلْكِتَٰبِ ۗ مَن يَعْمَلْ سُوٓءًۭا يُجْزَ بِهِۦ وَلَا يَجِدْ لَهُۥ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَلِيًّۭا وَلَا نَصِيرًۭا ﴾
“It may not accord with your wishful thinking - nor with the wishful thinking of the followers of earlier revelation - [that] he who does evil shall be requited for it, and shall find none to protect him from God, and none to bring him succour,”
خدا اور آخرت کو ماننے والے لوگ جب دنیا پرستی میں غرق ہوتے ہیں تو وہ خدا اور آخرت کا انکار کرکے ایسا نہیں کرتے۔ وہ صرف یہ کرتے ہیں کہ آخرت کے معاملہ کو رسمی عقیدہ کے خانہ میں ڈال دیتے ہیں اور عملاً اپنی تمام محنتیں اور سرگرمیاں دنیا کو حاصل کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ دنیا کی عزت اور دنیا کے فائدہ کو سمیٹنے کے معاملہ میں وہ پوری طرح سنجیدہ ہوتے ہیں۔ ان کو پانے کے لیے ان کے نزدیک مکمل جدوجہد ضروری ہوتی ہے۔ مگر آخرت کی کامیابی کو پانے کے لیے صرف خوش فہمیاں ان کو کافی نظر آنے لگتی ہیں۔ کسی بزرگ کی سفارش، کسی بڑے گروہ سے وابستگی، کچھ پاک کلمات کا ورد، بس اس قسم کے سستے اعمال سے یہ امید قائم کرلی جاتی ہے کہ وہ آدمی کو جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ سے بچائیں گے اور اس کو جنت کے پُربہار باغوں میں داخل کریں گے۔ مگر اس قسم کی خوش خیالیاں خواہ ان کو کتنے ہی خوب صورت الفاظ میں بیان کیا گیا ہو، وہ کسی کے کچھ کام آنے والے نہیں۔ اللہ کا نظام حد درجہ محکم نظام ہے۔ اس کے یہاں تمام فیصلے حقیقتوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں، نہ کہ محض آرزوؤں کی بنیاد پر۔ اللہ کی عدالت میں ہر آدمی کا اپنا عمل دیکھا جائے گا اور جیسا جس کا عمل ہوگا ٹھیک اسی کے مطابق اس کا فیصلہ ہوگا۔ اللہ کے قانونِ عدل کے سوا کوئی بھی دوسری چیز نہیں جو اللہ کے یہاں فیصلہ کی بنیاد بننے والی ہو۔ اللہ کا وہ بندہ کون ہے جس پر اللہ اپنی رحمتوں کی بارش کرے گا۔ اس کی ایک تاریخی مثال ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ یہ وہ بندے ہیں جو دنیا میں اللہ کے مومن بن کررہیں۔ جو اپنے آپ کو ہمہ تن اپنے رب کی طرف یکسو کرلیں۔ جو اپنی وفاداریاں پوری طرح اللہ کے لیے خاص کردیں۔ انھوںنے دنیا میں اپنے معاملات کو اس طرح قائم کیا ہو کہ وہ ظلم اور سرکشی سے دور رہنے والے اور عدل اور تواضع کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے ہوں۔ چہرہ آدمی کے پورے وجود کا نمائندہ ہے۔ چہرہ خدا کی طرف پھیرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے پورے وجود کو خدا کی طرف پھیر دے۔ اللہ تمام کائنا ت کا مالک ہے۔ اس کے پاس ہر قسم کی طاقتیں ہیں۔ مگر موجودہ دنیا میں اللہ نے اپنے کو غیب کے پردہ میں چھپا دیا ہے۔ دنیا میں جتنی بھی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اسی لیے پیدا ہوتی ہیں کہ آدمی خدا کو نہیں دیکھتا، وہ سمجھ لیتا ہے کہ میں آزاد ہوں کہ جو چاہوں کروں۔ اگرآدمی یہ جان لے کہ انسان کے اختیار میں کچھ نہیں تو آدمی پر جو کچھ قیامت کے دن بیتنے والا ہے وہ اس پر آج ہی بیت جائے۔