An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَن تَسْتَطِيعُوٓا۟ أَن تَعْدِلُوا۟ بَيْنَ ٱلنِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا۟ كُلَّ ٱلْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَٱلْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا۟ وَتَتَّقُوا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ كَانَ غَفُورًۭا رَّحِيمًۭا ﴾
“And it will not be within your power to treat your wives with equal fairness, however much you may desire it; and so, do not allow yourselves to incline towards one to the exclusion of the other, leaving her in a state, as it were, of having and not having a husband. But if you put things to rights and are conscious of Him - behold, God is indeed much-forgiving, a dispenser of grace.”
پوچھنے والوں نے بعض معاشرتی امور کی بابت شرعی حکم دریافت کیا تھا۔ اس سلسلے میں حکم بتاتے ہوئے خیر وانصاف اور صلاح وتقویٰ پر زور دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی قانون اسی وقت اپنے مقصد کو پورا کرتا ہے جب کہ اس کو عمل میں لانے والا آدمی اللہ سے ڈرتا ہو اور فی الواقع انصاف کا طالب ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو قانون کی ظاہری تعمیل کے باوجود حقیقی بہتری پیدا نہیں ہوسکتی۔ معاشرہ کی واقعی اصلاح صرف اس وقت ہوتی ہے جب کہ برائی کرنے والا برائی سے اس ليے ڈرے کہ اصل معاملہ خدا سے ہے اور برائی کرنے کے بعد میں کسی طرح اس کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا۔ اسی طرح بھلائی کرنے والا یہ سوچے کہ لوگوں کی طرف سے خواہ مجھے اس کا کوئی صلہ نہ ملے مگر اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور وہ ضرور مجھ کو اس کا انعام دے گا۔ جہنم کا اندیشہ آدمی کو ظلم سے روکتا ہے اور جنت کی امید اس نقصان کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کردیتی ہے جو حق پرستانہ زندگی کے نتیجہ میں لازماً سامنے آتا ہے۔ میاں بیوی یادو آدمیوں میں اختلاف کی وجہ ہمیشہ حرص ہوتی ہے۔ ایک فریق دوسرے فریق کا لحاظ كيے بغیر صرف اپنے مطالبات کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ یہ ذہنیت ہر ایک کو دوسرے کی طرف سے غیر مطمئن بنا دیتی ہے۔ صحیح مزاج یہ ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کی معذوری کو سمجھیں اور ایک دوسرے کی رعایت کرتے ہوئے کسی باہمی تصفیہ پر پہنچنے کی کوشش کریں۔ اللہ کا مطالبہ جس طرح یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی رعایت کرے، اسی طرح اللہ بھی اپنے بندوں کے ساتھ آخری حد تک رعایت فرماتا ہے۔ اللہ کے یہاں آدمی کی پکڑ ا س کی فطری کمزوریوں پر نہیں ہے بلکہ اس کی اس سرکشی پر ہے جو وہ جان بوجھ کر کرتا ہے۔ اگر آدمی اللہ سے ڈرے اور دل میں اصلاح کا جذبہ رکھے تو وہ نیت کی درستگی کے ساتھ جو کچھ کرے گا اس کے لیے وہ اللہ کے یہاں قابل معافی قرار پائے گا۔ اسی کے ساتھ آدمی کو کبھی اس غلط فہمی میں نہ پڑنا چاہیے کہ وہ دوسرے کا کام بنانے والا ہے۔ ہر ایک کا کام بنانے والا صرف اللہ ہے، خواہ وہ بظاہر ایک طرح کے حالات میں ہو یا دوسری طرح کے حالات میں۔