An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ۞ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ كُونُوا۟ قَوَّٰمِينَ بِٱلْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰٓ أَنفُسِكُمْ أَوِ ٱلْوَٰلِدَيْنِ وَٱلْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًۭا فَٱللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا۟ ٱلْهَوَىٰٓ أَن تَعْدِلُوا۟ ۚ وَإِن تَلْوُۥٓا۟ أَوْ تُعْرِضُوا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًۭا ﴾
“O YOU who have attained to faith! Be ever steadfast in upholding equity, bearing witness to the truth for the sake of God, even though it be against your own selves or your parents and kinsfolk. Whether the person concerned be rich or poor, God's claim takes precedence over [the claims of] either of them. Do not, then, follow your own desires, lest you swerve from justice: for if you distort [the truth], behold, God is indeed aware of all that you do!”
اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے سامنے ایسا معاملہ آتا ہے جس میں ایک راستہ اپنے مفاد اور خواہش کا ہوتا ہے اور دوسرا حق اور انصاف کا۔ جولوگ اللہ کی طرف سے غافل ہوتے ہیں، جن کو یقین نہیں ہوتا کہ اللہ ہر وقت ان کو دیکھ رہا ہے وہ ایسے مواقع پر اپنی خواہش کے رخ پر چل پڑتے ہیں۔ وہ اس کو کامیابی سمجھتے ہیں کہ حق کی پروا نہ کریں اور معاملہ کو اپنے مفاد اور اپنی مصلحت کے مطابق طے کریں۔ مگر جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں، جو اللہ کو اپنا نگراں بنائے ہوئے ہیں وہ تمام تر انصاف کے پہلو کو دیکھتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو حق و انصاف کا تقاضا ہو۔ ان کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ ان کو موت آئے تو اس حال میں آئے کہ انھوں نے کسی کے ساتھ بے انصافی نہ کی ہو، وہ اپنے آپ کو مکمل طورپر قسط اور عدل پر قائم کیے ہوئے ہوں۔ ان کی انصاف پسندی کا یہ جذبہ اتنا بڑھا ہوا ہوتا ہے کہ ان کے لیے ناممکن ہوجاتا ہے کہ وہ انصاف سے ہٹا ہوا کوئی رویہ دیکھیں اور اس کو برداشت کرلیں۔ جب بھی ایسا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے کہ ایک شخص دوسرے کے ساتھ ناانصافی کررہا ہو تو وہ ایسے موقع پر حق کا اعلان کرنے سے باز نہیں رہتے۔ اگر انصاف کا اعلان کرنے میں ان کے قریبی تعلق والوں پر زد پڑتی ہو یا ان کی اپنی مصلحتیں مجروح ہوتی ہوں تب بھی وہ وہی کہتے ہیں جو انصاف کی رو سے انھیں کہنا چاہیے۔ ان کی زبان کھلتی ہے تو اللہ کے لیے کھلتی ہے، نہ کہ کسی اور چیز کے لیے۔ اسی طرح یہ بات بھی غلط ہے کہ صاحب معاملہ طاقت ور ہو تو اس کو اس کا حق دیا جائے اور اگر صاحب معاملہ کمزور ہو تو اس کا حق اس کو نہ دیا جائے۔ مومن وہ ہے جو ہر آدمی کے ساتھ انصاف کرے، خواہ وہ زور آور ہو یاکم زور۔ جب کوئی آدمی ناانصافی کا ساتھ دے تو وہ یہ کہہ کر ایسا نہیں کرتا کہ میں نا انصافی کرنے والے کا ساتھی ہوں۔ بلکہ وہ اپنی ناانصافی کو انصاف کا رنگ دینے کی کوشش کرتاہے۔ ایسے موقع پر ہر آدمی دو میں سے کوئی ایک رویہ اختیار کرتا ہے۔ یا تو وہ یہ کرتا ہے کہ بات کو بدل دیتا ہے۔وہ معاملہ کی نوعیت کو ایسے الفاظ میں بیان کرتا ہے جس سے ظاہر ہو که یہ ناانصافی کا معاملہ نہیں بلکہ عین انصاف کا معاملہ ہے جس کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے وہ اسی کا مستحق ہے کہ اس کے ساتھ ایسا کیا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی خاموشی اختیار کرلے۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہاں ناانصافی کی جارہی ہے وہ کتراکر نکل جائے اور جو کہنے کی بات ہے اس کو زبان پر نہ لائے۔ اس قسم کا طرز عمل ثابت کرتاہے کہ آدمی اپنے اوپر اللہ کو نگراں نہیں سمجھتا۔