An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ ءَامِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَٱلْكِتَٰبِ ٱلَّذِى نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ وَٱلْكِتَٰبِ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِٱللَّهِ وَمَلَٰٓئِكَتِهِۦ وَكُتُبِهِۦ وَرُسُلِهِۦ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَٰلًۢا بَعِيدًا ﴾
“O you who have attained to faith! Hold fast unto your belief in God and His Apostle, and in the divine writ which He has bestowed from on high upon His Apostle, step by step, as well as in the revelation which He sent down aforetime: for he who denies God, and His angels, and His revelations, and His apostles, and the Last Day, has indeed gone far astray.”
’’ایمان والوایمان لاؤ‘‘ ایسا ہی ہے جیسے کہا جائے کہ مسلمانوں مسلمان بنو۔ اپنے کو مسلمان کہنا یا مسلمان سمجھنا اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ آدمی اللہ کے یہاں بھی مسلمان قرار پائے۔ اللہ کے یہاں صرف وہ شخص مسلمان قرار پائے گا جو اللہ کو اس طرح پائے کہ وہی اس کے یقین واعتماد کا مرکز بن جائے۔ جو رسول کو اس طرح مانے کہ ہر دوسری رہنمائی اس کے لیے بے حقیقت ہوجائے۔ جو آسمانی کتاب کو اس طرح اپنائے کہ اس کی سوچ اور جذبات بالکل اس کے تابع ہوجائیں۔ جو فرشتوں کے عقیدہ کو اس طرح اپنے دل میں بٹھائے کہ اس کو محسوس ہونے لگے کہ اس کے دائیں بائیں ہر وقت خدا کے چوکیدار کھڑے ہوئے ہیں۔ جو آخرت کا اس طرح اقرار کرے کہ وہ اپنے ہر قول وفعل کو آخرت کی میزان پر جانچنے لگے۔ جو شخص اس طرح مومن بنے وہی اللہ کے نزدیک اس راستہ پر ہے جو ہدایت اور کامیابی کا راستہ ہے۔ اور جو شخص اس طرح مومن نہ بنے وہ ایک بھٹکا ہوا انسان ہے، خواہ وہ اپنے آپ خود کو کتنا ہی مومن ومسلم سمجھتا ہو۔ ماننے اور نہ ماننے کا یہ معرکہ آدمی کی زندگی میں ہر وقت جاری رہتا ہے۔ جب بھی کوئی معاملہ پڑتا ہے تو آدمی کا ذہن دو میں سے کسی ایک رخ پر چل پڑتا ہے۔ یا خواہشات کی طرف یا حق کے تقاضے پورے کرنے کی طرف۔ اگر ایسا ہو کہ معاملہ کے وقت آدمی کی سوچ اور جذبات خواہش کی سمت میں چل پڑیں تو گویا ایمان لانے والے نے ایمان سے انکار کیا۔ ا س کے برعکس، اگر وہ اپنی سوچ اور جذبات کو حق کا پابند بنا لے تو گویا ایمان لانے والا ایمان لے آیا۔ آدمی مسلمان بن کر دنیا کی زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایک حق بات اس کے سامنے آتی ہے۔ اب ایک شخص وہ ہے جو ایسے موقع پر تواضع کا رویہ اختیار کرے اور حق کا اعتراف کرے۔ دوسرا شخص وہ ہے جس کے اندر کبر کی نفسیات جاگ اٹھیں اور وہ حق بات کو ٹھکرادے۔ پہلی صورت ایمان کی صورت ہے اور دوسری صورت ایمان کا انکار کرنے کی۔ جو شخص سچا مومن نہ ہو وہ دنیا کی عزت و جاہ کو پسند کرتا ہے اس لیے وہ ان لوگوں کی طرف جھک پڑتا ہے جن سے منسوب ہو کر اس کی عزت وجاہ میں اضافہ ہو، خواہ وہ اہلِ باطل ہوں۔ اس کو ان لوگوں سے دل چسپی نہیں ہوتی جن سے منسوب ہونا اس کی عزت وجاہ میں اضافہ نہ کرے، خواہ وہ اہلِ حق ہوں۔