An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ يَسْـَٔلُكَ أَهْلُ ٱلْكِتَٰبِ أَن تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَٰبًۭا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ ۚ فَقَدْ سَأَلُوا۟ مُوسَىٰٓ أَكْبَرَ مِن ذَٰلِكَ فَقَالُوٓا۟ أَرِنَا ٱللَّهَ جَهْرَةًۭ فَأَخَذَتْهُمُ ٱلصَّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ ثُمَّ ٱتَّخَذُوا۟ ٱلْعِجْلَ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ ٱلْبَيِّنَٰتُ فَعَفَوْنَا عَن ذَٰلِكَ ۚ وَءَاتَيْنَا مُوسَىٰ سُلْطَٰنًۭا مُّبِينًۭا ﴾
“THE FOLLOWERS of the Old Testament demand of thee [O Prophet] that thou cause a revelation to be sent down to them from heaven. And an even greater thing than this did they demand of Moses when they said, "Make us see God face to face" - whereupon the thunderbolt of punishment overtook them for this their wickedness. After that, they took to worshipping the [golden] calf - and this after all evidence of the truth had come unto them! None the less, We effaced this [sin of theirs], and vouchsafed unto Moses a clear proof [of the truth],”
خدا کا پیغمبر انسانوں میں سے ایک انسان ہوتا ہے۔ وہ عام آدمی کی صورت میں لوگوں کے سامنے آتا ہے۔ اس ليے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ ایک عام آدمی کو کس طرح خدا کا نمائندہ مان لیں۔ وہ کیسے یقین کرلیں کہ سامنے کا آدمی ایک ایسا شخص ہے جو خدا کی طرف سے بولنے کے لیے مقرر ہوا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ جو کلام تم پیش کررہے ہو اس کو آسمان سے آتا ہوا دکھاؤ یا خداخود تمھاری تصدیق کے لیے آسمان سے اتر پڑے تب ہم تمھاری بات مانیںگے۔ مگر اس قسم کا مطالبہ حد درجہ غیر سنجیدہ مطالبہ ہے۔ کیوں کہ انسان کا امتحان تو یہ ہے کہ وہ دیکھے بغیر مانے، وہ حقیقتوں کو ان کی معنوی صورت میں پالے۔ ایسی حالت میں دکھا کر منوانے کا کیا فائدہ۔ نیز یہ کہ اگر کچھ دیر کے لیے عالم کے نظام کو بدل دیا جائے اور آدمی کو اس کے مطالبہ کے مطابق چیزوں کو دکھا دیا جائے تب بھی وہ بے فائدہ ہوگا۔ کیوں کہ یہ دکھانا بہر حال وقتی ہوگا، نہ کہ مستقل۔ اور انسان کی آزادی جو اس کو سرکشی کی طرف لے جاتی ہے اس کے بعد بھی باقی رہے گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ دیکھنے کے وقت تک وہ سہم کر مان لے گا اور اس کے بعد دوبارہ اپنی آزادی کا غلط استعمال شروع کردے گا جیسا کہ دیکھنے سے پہلے کررہا تھا۔ یہود کی مثال اس کی تاریخی تصدیق کرتی ہے۔ کوہ طور کے دامن میں غیر معمولی حالات پیدا کرکے یہود سے یہ عہد لیاگیا تھا کہ وہ اپنے عبادت خانہ (خروج، 19:16-19 )میں تواضع کے ساتھ داخل ہوں اور خشوع کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں۔ اور یہ کہ معاش کے حصول کے لیے جو جدوجہد کریں وہ اللہ کے حدود میں رہ کر کریں، نہ کہ اس سے آزاد ہو کر۔ مگر یہود نے اس قسم کے تمام عهدوںکو توڑ دیا۔ ’’موسی کو ہم نے سلطان مبین (کھلی حجت) دی‘‘— اللہ کا یہ معاملہ ہر پیغمبر کے ساتھ ہوتا ہے۔ پیغمبر اگرچہ ایک عام انسان کی طرح ہوتا ہے مگر اس کے کلام اور اس کے احوال میں ایسے کھلے ہوئے دلائل موجود ہوتے ہیں جو اس کی خدائی حیثیت کو قطعیت کے ساتھ ثابت کررہے ہوتے ہیں۔ مگر ظالم انسان ہر خدائی نشانی کی ایک ایسی توجیہہ ڈھونڈ لیتاہے جس کے بعد وہ اس کو رد کرکے اپنی سرکشی کی زندگی کو بدستور جاری رکھے۔