An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَأَخْذِهِمُ ٱلرِّبَوٰا۟ وَقَدْ نُهُوا۟ عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَٰلَ ٱلنَّاسِ بِٱلْبَٰطِلِ ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَٰفِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًۭا ﴾
“and [for] their taking usury although it had been forbidden to them, and their wrongful devouring of other people's possessions. And for those from among them who [continue to] deny the truth We have readied grievous suffering.”
عکرمہ کہتے ہیں کہ کوئی یہودی یا عیسائی نہیں مرے گا یہاں تک کہ وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے (لَا يَمُوتُ النَّصْرَانِيُّ وَلَا الْيَهُودِيُّ حَتَّى يُؤْمِنَ بِمُحَمَّدٍصَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) تفسير ابن كثير، جلد 2،ص 454 ۔ یہود ونصاري كے پاس آسمانی علم تھا۔ ایسے لوگ یہ سمجھنے میں غلطی نہیں کرسکتے تھے کہ پیغمبر عربی کی دعوت خالص خدائی دعوت ہے۔ مگر پیغمبر عربی کو ماننا اور ان کے مشن میں اپنا مال اور اپنی زندگی لگانا ان کو دنیوی مصلحتوں کے خلاف نظر آتا تھا۔ اس بنا پر انھوں نے آپ کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ مگر جب موت آدمی کے سامنے آتی ہے تو اس قسم کی تمام مصلحتیں باطل ہوتی ہوئی نظر آنے لگتی ہیں۔ اس وقت آدمی کے ذہن سے تمام مصنوعی پردے ہٹ جاتے ہیں اور حق اپنی کھلی صورت میں سامنے آجاتا ہے۔ موت کے دروازے پر پہنچ کر آدمی اس چیز کا اقرار کرلیتاہے جس کو وہ موت سے پہلے ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ مگر اس وقت کے اقرار کی اللہ کی نظر میں کوئی قیمت نہیں۔ جب کوئی گروہ خدائی دین کے بجائے خود ساختہ دین کو اختیار کرتا ہے تو وہ اپنی دینی حیثیت کو ظاہر کرنے کے لیے کچھ خود ساختہ نشانات بھی قائم کرتا ہے۔ وہ اپنے مزاج اور اپنے حالات کے لحاظ سے حرام وحلال کے نئے قاعدے بناتا ہے اور ان کا خصوصی اہتمام کرکے ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ دوسروں سے زیادہ دین پر قائم ہے۔ ایسے لوگوں کا دین بعض ظاہری چیزوں کے اہتمام پر مبنی ہوتا ہے، نہ کہ اللہ والا بننے پر۔ چنانچہ وہ اس سے نہیں ڈرتے کہ اللہ کے منع كيے ہوئے طریقوں سے دنیوی فائدے حاصل کریں اور اللہ کے لیے ہونے والے کام کا راستہ روکیں۔ ایسے لوگوں کا انجام اللہ کے یہاں بے دینوں کے ساتھ ہوگا، نہ کہ دین داروں کے ساتھ۔ یہودیوں میں چند لوگ، عبد اللہ بن سلّام وغیرہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ کا ساتھ دیا۔ جو لوگ انسانی اضافوں سے گزر کر اصلی آسمانی دین سے آشنا ہوتے ہیں، جو عصبیت اور تقلید اور مفاد پرستی کی ذہنیت سے آزاد ہوتے ہیں ان کو سچائی کو سمجھنے اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کرنے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی۔ وہ ہر قسم کے ذہنی خول سے باہر آکر سچائی کو دیکھ لیتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی جنتوں میں داخل كيے جائیں گے۔