An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ لَّٰكِنِ ٱللَّهُ يَشْهَدُ بِمَآ أَنزَلَ إِلَيْكَ ۖ أَنزَلَهُۥ بِعِلْمِهِۦ ۖ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةُ يَشْهَدُونَ ۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ شَهِيدًا ﴾
“However it be, God [Himself] bears witness to the truth of what He has bestowed from on high upon thee: out of His own wisdom has He bestowed it from on high, with the angels bearing witness thereto - although none can bear witness as God does.”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت یہود کو آسمانی مذہب کے نمائندہ کی حیثیت حاصل تھی۔ وہ مذہب کے بڑے بڑے مناصب پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کو منظور نہ ہوا کہ وہ اپنے سوا کسی اورکی بڑائی تسلیم کریں۔ انھوںنے یہ ماننے سے انکار کردیا کہ آپ اللہ کی طرف سے انسانوں تک الله کا پیغام پہنچانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم دین کے اجارہ دار ہیں۔ ہم جس شخص کی دینی صداقت کو تسلیم نہ کریں، وہ بطور واقعہ بھی غیر تسلیم شدہ بن جاتا ہے۔ مگر وہ بھول گئے کہ یہ کائنات خدا کی کائنات ہے اور اس کا نظام خدا کے فرماں بردار فرشتے چلا رہے ہیں۔ اس لیے یہاں کسی کی اصل تصدیق وہ ہے جو خدا کی طرف سے ہو اور کائنات کا پورا نظام جس کی تائید کرے۔ اور یقیناً خدا اور اس کی پوری کائنات اپنے پیغمبر کے ساتھ ہے، نہ کہ کسی کے خود ساختہ مزعومات کے ساتھ۔ خدا کی پکار کے مقابلہ میں جو لوگ یہ رد عمل دکھائیں ، يعني کہ وہ اس کا اعراض وانکار کریں اور وہ لوگوں کو اس کا ساتھ دینے سے روکیں۔ وہ صرف یہ ثابت کررہے ہیں کہ وہ بندگي کے صحیح مقام سے بھٹک کر بہت دور نکل گئے ہیں۔ وہ ایسی بات کہتے ہیں جس کی تردید ساری کائنات کررہی ہے۔ وہ ایک ایسے منصوبہ کے خلاف محاذ بنا رہے ہیں جس کی پشت پر زمین و آسمان کا مالک کھڑا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑی نادانی اس دنیا میں اور کوئی نہیں۔ ایسے لوگ دین کے نام پر سب سے بڑی بے دینی کررہے ہیں۔ جو لوگ اپنے لیے اس قسم کا ظالمانہ رویہ پسند کریں ان کا ذہن اعتراف کے بجائے انکار کے رخ پر چلنے لگتا ہے۔ وہ دن بدن حق سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ابدی بربادی کے گڑھے میں جاگر تے ہیں۔ خدا کی دعوت کا انکار خود خدا کا انکار ہے۔ خدا کی دعوت اتنے کھلے ہوئے دلائل کے ساتھ ہوتی ہے کہ اس کو سمجھنا کسی کے لیے مشکل نہ رہے۔ اس کے باوجود جو لوگ خدا کی دعوت کا انکار کریں وہ گویا خدا کے سامنے ڈھٹائی کررہے ہیں۔ اور ڈھٹائی اللہ کے نزدیک سب سے بڑا جرم ہے۔ اگر آدمی نے اپنے دل کی کھڑکیاں کھلی رکھی ہوں تو اللہ کی پکار اس کو عین اپنی تلاش کا جواب معلوم ہوگی۔ اس کو محسوس ہوگاکہ وہ حق جو انسانی باتوں میں ڈھک کر رہ گیا تھا، اللہ نے اس کی بے آمیز شکل میں اس کے اعلان کا انتظام کیا ہے۔ یہ اللہ کے علم اور حکمت کا ظہور ہے، نہ کہ کسی شخص کے ذاتی جوش کا کوئی معاملہ۔