An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدُهُم مِّن فَضْلِهِۦ ۖ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ ٱسْتَنكَفُوا۟ وَٱسْتَكْبَرُوا۟ فَيُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا أَلِيمًۭا وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ وَلِيًّۭا وَلَا نَصِيرًۭا ﴾
“whereupon unto those who attained to faith and did good deeds He will grant their just rewards, and give them yet more out of His bounty; whereas those who felt too proud and gloried in their arrogance He will chastise with grievous suffering: and they shall find none to protect them from God, and none to bring them succour.”
آدمی کی یہ کمزوری ہے کہ کسی چیز میں کوئی امتیازی پہلو دیکھتا ہے تو اس کے بارے میںمبالغہ آمیز تصور قائم کرلیتا ہے۔ وہ اس کا مقام متعین کرنے میں حد سے آگے نکل جاتا ہے۔ اسی کا نام غلو ہے۔ شرک اور شخصیت پرستی کی تمام قسمیں اصلاً اسی غلو کی پیداوار ہیں۔ دین میں غلو یہ ہے کہ دین میں کسی چیز کا جو درجہ ہو اس کو اس کے واقعی درجہ پر نہ رکھا جائے بلکہ اس کو بڑھا کر زیادہ بڑا درجہ دینے کی کوشش کی جائے — اللہ اپنے ایک بندے کو باپ کے بغیر پیدا کرے تو کہہ دیا جائے کہ یہ خدا کا بیٹا ہے۔ اللہ کسی کو کوئی بڑا مرتبہ دے دے تو سمجھ لیا جائے کہ وہ کوئی مافوق شخصیت ہے اور بشری غلطیوں سے پاک ہے۔ دنیا کی چمک دمک سے بچنے کی تاکید کی جائے تو اس کو بڑھا چڑھا کر ترک دنیا تک پہنچا دیا جائے۔ زندگی کے کسی پہلو کے بارے میں کچھ احکام ديے جائیں تو اس میں مبالغہ کرکے اسی کی بنیاد پر ایک پورا دینی فلسفہ بنا دیا جائے۔ اس قسم کی تمام صورتیں جن میں کسی دینی چیز کو اس کے واقعی مقام سے بڑھا کر مبالغہ آمیز درجہ دیا جائے۔ وہ غلو کی فہرست میں شامل ہوگا۔ ہر قسم کی طاقتیں صرف اللہ کو حاصل ہیں۔ اس کے سوا جتنی چیزیں ہیں سب عاجز اور محکوم ہیں۔ انسان اپنے شعور کے کمال درجے پر پہنچ کر جو چیز دریافت کرتا ہے وہ یہ کہ خدا قادر مطلق ہے اور وہ اس کے مقابلہ میں عاجز مطلق۔ پیغمبراور فرشتے اس شعور میں سب سے آگے ہوتے ہیں، اس لیے وہ خدا کی قدرت اور اپنے عجز کے اعتراف میں بھی سب سے آگے ہوتے ہیں۔اعتراف ہی انسان کا اصل امتحان ہے۔ جس کو اپنے عجز کا شعور ہوجائے اس نے خدا کے مقابلہ میں اپنی نسبت کو پالیا۔ اور جس کو اپنے عجز کا شعور نہ ہو وہ خدا کے مقابلہ میں اپنی نسبت کو پانے سے محروم رہا۔ پہلا شخص آنکھ والا ہے جو کامیابی کے ساتھ اپنی منزل کو پہنچے گا۔ دوسرا شخص اندھا ہے جس کے لیے اس کے سوا کوئی انجام نہیں کہ وہ بھٹکتا رہے یہاں تک کہ ذلّت کے گڑھے میں جاگرے۔