slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 20 من سورة سُورَةُ النِّسَاءِ

An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَإِنْ أَرَدتُّمُ ٱسْتِبْدَالَ زَوْجٍۢ مَّكَانَ زَوْجٍۢ وَءَاتَيْتُمْ إِحْدَىٰهُنَّ قِنطَارًۭا فَلَا تَأْخُذُوا۟ مِنْهُ شَيْـًٔا ۚ أَتَأْخُذُونَهُۥ بُهْتَٰنًۭا وَإِثْمًۭا مُّبِينًۭا ﴾

“But if you desire to give up a wife and to take another in her stead, do not take away anything of what you have given the first one, however much it may have been. Would you, perchance, take it away by slandering her and thus committing a manifest sin?”

📝 التفسير:

مرنے والے کے مال میں یقیناًبعد والوں کو وراثت کا حق ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مرنے والے کی بیوی کو بھی بعد کے لوگ اپنی میراث سمجھ لیں اور جس طرح چاہیں اس کو استعمال کریں۔ مال ایک بے حس اور محکوم چیز ہے اور اس میں وراثت چلتی ہے۔ مگر انسان ایک زندہ اور آزاد ہستی ہے۔ اس کو اختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرے — عورت میں اگر کوئی جسمانی یا مزاجی کمی ہے تو اس کو برداشت کرتے ہوئے عورت کو موقع دینا چاہیے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی دوسری خصوصیتوں کو بروئے کار لاکر گھر کی تعمیر میں اپنا حصہ ادا کرے۔ آدمی کو چاہیے کہ ظاہری ناپسندیدگی کو بھول کر باہمی تعلق کونبھائے۔ کسی خاندان اور اسی طرح کسی معاشرہ کی ترقی واستحکام کا راز یہ ہے کہ اس کے افراد ایک دوسرے کی کمیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی خوبیوں کو بروئے کار آنے کا موقع دیں۔ جو لوگ اللہ کی خاطر موجودہ دنیا میں صبر وبرداشت کا طریقہ اختیار کریں وہی وہ لوگ ہیں جو آخرت کی جنّتوں میں داخل کيے جائیں گے۔ جب آدمی کو اپنا شریک حیات ناپسند ہو اور وہ صبر کا طریقہ اختیار نہ کرکے علیٰحدگی کا فیصلہ کرے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس علیحدگی کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے وہ دوسرے فریق کی خامیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتاہے۔ وہ اس پر جھوٹے الزام لگاتا ہے۔ وہ اس کے خلاف ظالمانہ کارروائی کرتا ہے تاکہ وہ گھبرا کر خود ہی بھاگ جائے۔ اسی طرح جب آدمی کسی سے تعلق توڑتا ہے تو ضد میں آکر فریق ثانی کو دی ہوئی چیزیں اس سے واپس چھیننے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر یہ سب عہد کی خلاف ورزی ہے اور عهد اللہ کی نظر میں ایسی مقدس چیز ہے کہ اگر وہ غیر تحریری شکل میں ہو تب بھی اس کی پابندی اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ تحریری عہد کی۔ ’’جو ہوچکا سو ہوچکا ‘‘ کا اصول صرف نکاح سے متعلق نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک عام اصول ہے۔ زندگی کے نظام میں جب بھی کوئی تبدیلی آتی ہے، خواہ وہ گھریلو زندگی میں ہو یا قومی زندگی میں، تو ماضی کے بہت سے امور ایسے ہوتے ہیں جو نئے انقلاب کے معیار پر غلط نظر آتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ماضی کو کریدنا اور گزری ہوئی غلطیوں پر احکام صادر کرنا بے شمار نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ ماضی کو بھلا دیا جائے اور صرف حال اور مستقبل کی اصلاح پر اپنی کوششیں لگا دی جائیں۔ ’’اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے گزر بسر کرو۔ اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ تم کو ایک چیز پسند نه ہو مگر اللہ نے اس کے اندر تمھارے لیے کوئی بڑی بھلائی رکھ دی ہو‘‘ — یہ فقرہ یہاں اگرچہ میاں بیوی کے تعلق کے بارے میں آیا ہے۔ مگر اس کے اندر ایک عمومی تعلیم بھی ہے۔ قرآن کا یہ عام اسلوب ہے کہ ایک متعین معاملہ کا حکم بتاتے ہوئے اس کے درمیان ایک ایسی کلی ہدایت دے دیتا ہے جس کا تعلق آدمی کی پوری زندگی سے ہو۔ دنیا کی زندگی میں انسان کے لیے مل جل کر رہنا ناگزیر ہے۔ کوئی شخص بالکل اگ تھلگ زندگی گزار نہیں سکتا۔ اب چوں کہ طبیعتیں الگ الگ ہیں، اس لیے جب بھی کچھ لوگ مل کر رہیں گے ان کے درمیان لازماً شکایات پیدا ہوں گی۔ ایسی حالت میں قابلِ عمل صورت صرف یہ ہے کہ شکایتوں کو نظر انداز کیا جائے اور خوش اسلوبی کے ساتھ تعلق کو نبھانے کا اصول اختیار کیا جائے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اپنے ساتھی کی ایک خرابی آدمی کے سامنے آتی ہے اور وہ بس اسی کو لے کر اپنے ساتھی سے روٹھ جاتا ہے۔ حالاں کہ اگر وہ سوچے تو وہ پائے گا کہ ہر ناموافق صورت حال میں کوئی خیر کا پہلو موجود ہے۔ کبھی کسی واقعہ میں آدمی کے لیے صبر کی تربیت کا امتحان ہوتا ہے۔ کبھی اس کے اندر اللہ کی طرف رجوع اور انابت کی غذا ہوتی ہے۔ کبھی ایک چھوٹی سی تکلیف میںکوئی بڑا سبق چھپا ہوا ہوتا ہے، وغیرہ۔