An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَٰتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَٰتُكُمْ وَعَمَّٰتُكُمْ وَخَٰلَٰتُكُمْ وَبَنَاتُ ٱلْأَخِ وَبَنَاتُ ٱلْأُخْتِ وَأُمَّهَٰتُكُمُ ٱلَّٰتِىٓ أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَٰتُكُم مِّنَ ٱلرَّضَٰعَةِ وَأُمَّهَٰتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبَٰٓئِبُكُمُ ٱلَّٰتِى فِى حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ ٱلَّٰتِى دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا۟ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَٰٓئِلُ أَبْنَآئِكُمُ ٱلَّذِينَ مِنْ أَصْلَٰبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا۟ بَيْنَ ٱلْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ غَفُورًۭا رَّحِيمًۭا ﴾
“Forbidden to you are your mothers, and your daughters, and your sisters, and your aunts paternal and maternal, and a brother's daughters, and a sister's daughters; and your milk-mothers, and your milk-sisters; and the mothers of your wives; and your step-daughters - who are your foster children - born of your wives with whom you have consummated your marriage; but if you have not consummated your marriage, you will incur no sin [by marrying their daughters]; and [forbidden to you are] the spouses of the sons who have sprung from your loins; and [you are forbidden] to have two sisters [as your wives] at one and the same time - but what is past is past: for, behold, God is indeed much-forgiving, a dispenser of grace.”
انسان کے اندر بہت سی فطری خواہشیں ہیں۔ انھیں میں سے ایک شہوانی خواہش ہے جو عورت اور مرد کے درمیان پائی جاتی ہے۔ شریعت تمام انسانی جذبات کی حد بندی کرتی ہے۔ اسی طرح اس نے شہوانی جذبات کے لیے بھی حدود اور ضابطے مقرر کيے ہیں۔ شریعت الٰہی کے مطابق عورت اور مرد کے درمیان صرف وہی شہوانی تعلق صحیح ہے جو نکاح کی صورت میں ایک سنجیدہ معاشرتی معاہدہ کی حیثیت سے قائم ہو۔ پھر یہ کہ جس طرح فطری جذبات کی تسکین ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ خاندانی زندگی میں تقدس کی فضا موجود رہے۔ اس مقصد کے لیے نسب یا رضاعت یا مصاہرت کے تحت قائم ہونے والے کچھ رشتوں کو حرام قرار دے دیاگیا تاکہ بالکل قریبی رشتوں کے درمیان تعلق، شہوانی جذبات سے اوپر رہے۔ انسان کی عزت وبڑائی کا معیار وہ دکھائی دینے والی چیز يں نہیں ہیں جن پر لوگ ایک دوسرے کی عزت وبڑائی کو ناپتے ہیں۔ بلکہ بڑائی کا معیار وہ نہ دکھائی دینے والا ایمان ہے جو صرف اللہ کے علم ميں ہوتا ہے۔ گویا کسی کا عزت والا ہونا یا بے عزت والا ہونا ایسی چیز نہیں جو آدمی کو معلوم ہو۔ یہ تمام تر نامعلوم چیز ہے اور اس کا فیصلہ آخرت میں اللہ کی عدالت میں ہونے والا ہے۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جو آدمی سے برتری کا احساس چھین لیتا ہے۔ اور برتری کا احساس ہی وہ چیز ہے جو بیشتر معاشرتی خرابیوں کی اصل جڑ ہے۔