slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 25 من سورة سُورَةُ النِّسَاءِ

An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ ٱلْمُحْصَنَٰتِ ٱلْمُؤْمِنَٰتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُكُم مِّن فَتَيَٰتِكُمُ ٱلْمُؤْمِنَٰتِ ۚ وَٱللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَٰنِكُم ۚ بَعْضُكُم مِّنۢ بَعْضٍۢ ۚ فَٱنكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَءَاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ مُحْصَنَٰتٍ غَيْرَ مُسَٰفِحَٰتٍۢ وَلَا مُتَّخِذَٰتِ أَخْدَانٍۢ ۚ فَإِذَآ أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَٰحِشَةٍۢ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى ٱلْمُحْصَنَٰتِ مِنَ ٱلْعَذَابِ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِىَ ٱلْعَنَتَ مِنكُمْ ۚ وَأَن تَصْبِرُوا۟ خَيْرٌۭ لَّكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴾

“And as for those of you who, owing to cir­cumstances, are not in a position to marry free believing women, [let them marry] believing maidens from among those whom you rightfully possess. And God knows all about your faith; each one of you is an issue of the other. Marry them, then, with their people's leave, and give them their dowers in an equitable manner - they being women who give themselves in honest wedlock, not in fornication, nor as secret love-companions. And when they are married, and thereafter become guilty of immoral conduct, they shall be liable to half the penalty to which free married women are liable. This [permission to marry slave-girls applies] to those of you who fear lest they stumble into evil. But it is for your own good to persevere in patience [and to abstain from such marriages]: and God is much-forgiving, a dispenser of grace.”

📝 التفسير:

انسان کے اندر بہت سی فطری خواہشیں ہیں۔ انھیں میں سے ایک شہوانی خواہش ہے جو عورت اور مرد کے درمیان پائی جاتی ہے۔ شریعت تمام انسانی جذبات کی حد بندی کرتی ہے۔ اسی طرح اس نے شہوانی جذبات کے لیے بھی حدود اور ضابطے مقرر کيے ہیں۔ شریعت الٰہی کے مطابق عورت اور مرد کے درمیان صرف وہی شہوانی تعلق صحیح ہے جو نکاح کی صورت میں ایک سنجیدہ معاشرتی معاہدہ کی حیثیت سے قائم ہو۔ پھر یہ کہ جس طرح فطری جذبات کی تسکین ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ خاندانی زندگی میں تقدس کی فضا موجود رہے۔ اس مقصد کے لیے نسب یا رضاعت یا مصاہرت کے تحت قائم ہونے والے کچھ رشتوں کو حرام قرار دے دیاگیا تاکہ بالکل قریبی رشتوں کے درمیان تعلق، شہوانی جذبات سے اوپر رہے۔ انسان کی عزت وبڑائی کا معیار وہ دکھائی دینے والی چیز يں نہیں ہیں جن پر لوگ ایک دوسرے کی عزت وبڑائی کو ناپتے ہیں۔ بلکہ بڑائی کا معیار وہ نہ دکھائی دینے والا ایمان ہے جو صرف اللہ کے علم ميں ہوتا ہے۔ گویا کسی کا عزت والا ہونا یا بے عزت والا ہونا ایسی چیز نہیں جو آدمی کو معلوم ہو۔ یہ تمام تر نامعلوم چیز ہے اور اس کا فیصلہ آخرت میں اللہ کی عدالت میں ہونے والا ہے۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جو آدمی سے برتری کا احساس چھین لیتا ہے۔ اور برتری کا احساس ہی وہ چیز ہے جو بیشتر معاشرتی خرابیوں کی اصل جڑ ہے۔