slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 26 من سورة سُورَةُ النِّسَاءِ

An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ وَيَتُوبَ عَلَيْكُمْ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌۭ ﴾

“God wants to make [all this] clear unto you, and to guide you onto the [righteous] ways of life of those who preceded you, and to turn unto you in His mercy: for God is all-knowing, wise.”

📝 التفسير:

زندگی کے طریقے جو قرآن میں بتائے گئے ہیں وہ کوئی نئے نہیں ہیں۔ ہر دور میں اللہ اپنے پیغمبروں کے ذریعہ ان کا اعلان کراتا رہا ہے۔ ہر زمانہ کے خدا پرست لوگوں کا اسی پر عمل تھا۔ مگر قدیم آسمانی کتابوں کے محفوظ نہ رہنے کی وجہ سے یہ طریقے گم ہوگئے۔ اب اللہ نے اپنے آخری رسول کے ذریعہ ان کو عربی زبان میں اتارا اور ان کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا۔ آج جب کوئی گروہ ان طریقوں پر اپنی زندگی کو ڈھالتا ہے تو گویا وہ صالحین کے اس ابدی قافلہ میں شامل ہوجاتا ہے جن کو اللہ کی رحمتوں میں حصہ ملا، جو ہر زمانہ میں اللہ کے اُس راستہ پر چلے جس کو اللہ نے اپنے وفادار بندوں کے لیے کھولا تھا۔ ہر انسانی گروہ میں ایسا ہوتا ہے کہ کچھ چیزیں صدیوں کے رواج سے جڑ جمالیتی ہیں۔ وہ لوگوں کے ذہنوں پر اس طرح چھا جاتی ہیں کہ ان کے خلاف سوچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جب اللہ کا کوئی بندہ معاشرتی اصلاح کا کام شروع کرتا ہے تو اس قسم کے لوگ چیخ اٹھتے ہیں۔ اپنے مانوس طریقوں کو چھوڑ کرنامانوس طریقوں كو اختيار كرنا ان كے ليے سخت دشوار هوجاتا هے۔ وه ايسي اصلاحي تحريك كے دشمن بن جاتے هيں، جو ان كو ان كے باپ داداكے طريقوں سے ہٹانا چاہتی ہو۔ اس سلسلہ میں مذہبی طبقہ کاردعمل اور بھی زیادہ شدید ہوتا ہے۔ جب دین کا اندرونی پہلو کمزور ہوتا ہے تو خارجی موشگافیاں جنم لیتی ہیں۔ اب آداب وقواعد کا ایک ظاہری ڈھانچہ بنا لیا جاتا ہے۔ لوگ دین کی اصلی کیفیات سے خالی ہوتے ہیںاور ظاہری آداب وقواعد کی پابندی کرکے سمجھتے ہیں کہ وہ خدا کے دین پر قائم ہیں۔ یہ خود ساختہ دین اسلاف سے منسوب ہو کر دھیرے دھیرے مقدس بن جاتا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ خدا کا سادہ اور فطری دین ان کو اجنبی معلوم ہوتا ہے، اور اپنا جکڑ بندیوں والا دین عین برحق نظرآتا ہے۔ ایسی حالت میں جو تحریک اصلی اور ابتدائی دین کو زندہ کرنے کے لیے اٹھے وہ اس کے شدید مخالف بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ اس ميں ان کو اپنی دین داری کی نفی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مثلاً خدا کی شریعت میں حیض کے زمانہ میں عورت کے ساتھ مباشرت ناجائز ہے، اس کے علاوہ دوسرے تعلقات اسی طرح رکھے جاسکتے ہیں جس طرح عام دنوںمیں ہوتے ہیں۔ یہودیوں نے اس سادہ حکم پر اضافہ کرکے یہ مسئلہ بنایا کہ ایام ماہواری میں عورت کی پکائی ہوئی چیز کو کھانا، اس کے ہاتھ کا پانی پینا، اس کے ساتھ ایک جگہ بیٹھنا، اس کو اپنے ہاتھ سے چھونا، سب ناجائز یا کم ازکم تقویٰ کے خلاف ہے۔ اس طرح حائضہ عورت سے مکمل دوری گویا پارسائی کی علامت بن گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں جب خدا کی اصلی شریعت کو زندہ کیا تو یہودی بگڑ گئے۔ وہ چیز جس پر انھوں نے اپنی پارسائی کی عمارت کھڑی کی تھی دفعۃً گرتی ہوئی نظر آئی — خدا کے سادہ دین کو جب بھی زندہ کیا جائے تو وہ لوگ اس کے سخت مخالف ہوجاتے ہیں،جو بناوٹی دین کے اوپر اپنی دین داری کی عمارت کھڑی كيے ہوئے ہوں۔ یہ ان سے سرداری چھیننے کے ہم معنی ہوتا ہے اور سرداری کا چھننا کوئی برداشت نہیں کرتا۔