An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلِكُلٍّۢ جَعَلْنَا مَوَٰلِىَ مِمَّا تَرَكَ ٱلْوَٰلِدَانِ وَٱلْأَقْرَبُونَ ۚ وَٱلَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَٰنُكُمْ فَـَٔاتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ شَهِيدًا ﴾
“And unto everyone have We appointed heirs to what he may leave behind: parents, and near kinsfolk, and those to whom you have pledged your troth give them, therefore, their share. Behold, God is indeed a witness unto everything.”
ایک کا مال دوسرے تک پہنچنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے کی ضرورت فراہم کرے اور اس سے اپنی محنت کا معاوضہ لے۔ یہ تجارت ہے اور شریعت کے مطابق، یہی کسب معاش کا صحیح طریقہ ہے۔ اس کے بجائے چوری، دھوکا، جھوٹ، رشوت، سود، جوا وغیرہ سے جو مال کمایا جاتا ہے وہ خدا کی نظر میں ناجائز طریقے سے کمایا ہوا مال ہے۔ یہ لوٹ کی مختلف قسمیں ہیں، اور جو لوگ تجارت کے بجائے لوٹ کو اپنا ذریعہ معاش بنائیں خواه وہ دنیا میں کامیاب رہیں مگر آخرت میں ان کے لیے آگ کا عذاب ہے۔ آدمی کی جان کا معاملہ بھی یہی ہے۔آدمی کو مارنے کا حق صرف ایک قائم شدہ حکومت کو ہے جو خدا کے قانون کے تحت باقاعدہ الزام ثابت ہونے کے بعد اس کے خلاف کارروائی کرے۔ اس کے سوا جو شخص کسی کو اس کی زندگی سے محروم کرنے کی کوشش کرتاہے، وہ فعل حرام کا ارتکاب کرتا ہے جس کے لیے اللہ کے یہاں سخت سزا ہے۔ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا جرم عدوان اور سرکشی ہے، یعنی حد سے نکلنا اور ناحق کسی کو ستانا۔ جو لوگ عدوان اور ظلم سے اپنے کو بچائیں ان کے ساتھ اللہ یہ خصوصی معاملہ فرمائے گا کہ وہ آخرت کی دنیا میں اس طرح داخل ہوں گے کہ ان کی معمولی کوتاہیاں اور لغزشیں ان سے دور کی جاچکی ہوں گی۔ دنیا میں ایک آدمی اور دوسرے آدمی کے درمیان فرق رکھاگیا ہے۔ کسی کو جسمانی اور ذہنی قوتوں میں کم حصہ ملا ہے اور کسی کو زیادہ ۔ کوئی اچھے حالات میں پیدا ہوتا ہے اور کوئی برے حالات میں۔ کسی کے پاس بڑے بڑے ذرائع ہیں اور کسی کے پاس معمولی ذرائع۔ آدمی جب کسی دوسرے کو اپنے سے بڑھا ہوا دیکھتا ہے تو اس کے اندر فوراً اس کے خلاف جلن پیدا ہوجاتی ہے۔ اس سے اجتماعی زندگی میں حسد، عداوت اور باہمی کش مکش پیدا ہوتی ہے۔ مگر ان چیزوں کے اعتبار سے اپنے یا دوسرے کو تولنا نادانی ہے۔ یہ سب دنیوی اہمیت کی چیزیں ہیں۔ یہ دنیا میں ملی ہیں اور دنیا ہی میں رہ جانے والی ہیں۔ اصل اہمیت آخرت کی کامیابی کی ہے اور آخرت کی کامیابی میں ان چیزوں کا کچھ بھی دخل نہیں۔ آخرت کی کامیابی کا انحصار اس عمل پر ہے جو آدمی ارادہ و اختیار سے اللہ کے لیے کرتا ہے۔ اس لیے بہترین عقل مندی یہ ہے کہ آدمی حسد سے اپنے آپ کو بچائے اور اللہ سے توفیق کی دعاکرتے ہوئے اپنے آپ کو آخرت کے لیے عمل کرنے میں لگا دے۔