An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَقْرَبُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَأَنتُمْ سُكَٰرَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا۟ مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِى سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا۟ ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰٓ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَآءَ أَحَدٌۭ مِّنكُم مِّنَ ٱلْغَآئِطِ أَوْ لَٰمَسْتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوا۟ مَآءًۭ فَتَيَمَّمُوا۟ صَعِيدًۭا طَيِّبًۭا فَٱمْسَحُوا۟ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا ﴾
“O YOU who have attained to faith! Do not attempt to pray while you are in a state of drunkenness, [but wait] until you know what you are saying; nor yet [while you are] in a state requiring total ablution, until you have bathed - except if you are travelling [and are unable to do so]. But if you are ill, or are travelling, or have just satisfied a want of nature, or have cohabited with a woman, and can find no water - then take resort to pure dust, passing [therewith] lightly over your face and your hands. Behold, God is indeed an absolver of sins, much-forgiving.”
حق کا داعی جب آتا ہے تو وہ ایک معمولی انسان کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کے گرد ظاہری بڑائیاں اور رونقیں جمع نہیں ہوتیں۔ اس لیے وقت کے بڑے اس کو حقیر سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔ ان کو یقین نہیں آتا کہ ایک ایسا شخص بھی ان سے زیادہ حق وصداقت والا ہوسکتا ہے جو دنیوی شان وشوکت میںان سے کم ہو۔ مگر جب قیامت آئے گی اور خدا کی عدالت قائم ہوگی تو وہ حیرت کے ساتھ دیکھیں گے کہ وہی شخص جس کو انھوں نے بے قیمت سمجھ کر ٹھکرا دیا تھا وہ آخرت کی عدالت میں خدائی گواہ بنادیاگیا ہے۔ وہی وہ شخص ہے جس کے بیان پر لوگوں کے لیے جنت اور جہنم کے فیصلے ہوں۔ یہ وہاں مجرم کے مقام پر کھڑے ہوں گے اور وہ خدا کی طرف سے بولنے والے کے مقام پر۔ یہ ایسا سخت اور ہولناک لمحہ ہوگا کہ لوگ چاہیں گے کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس کے اندر سما جائیں۔ مگر ان کی یہ شرمندگی ان کے کام نہ آئے گی۔خدا کے یہاں ان کے قول و عمل سے لے کر ان کی سوچ تک کا ریکارڈ موجود ہوگااور خدا انھیں دکھا دے گا کہ حق کے داعی کا انکار جو انھوں نے کیا وہ ناواقفیت کے سبب سے نہ تھا بلکہ گھمنڈ کی وجہ سے تھا۔ انھوںنے اپنے کو بڑا سمجھا اور داعیٔ حق کو چھوٹا جانا۔ حقیقت کو اس کی برہنہ صورت میں دیکھنے اور جاننے کے باوجود محض اس لیے اس کے منکر ہوگئے کہ اس کو ماننے میں ان کی اپنی بڑائی ختم ہوتی ہوئی نظر آتی تھی۔ شریعت میں غیر معمولی حالات میںغیر معمولی رخصت دی گئی ہے۔ مرض یا سفر یا پانی کا نہ ہونا یہ تینوں آدمی کے لیے غیر معمولی حالتیں ہیں۔ اس ليےان مواقع پر یہ رخصت دی گئی کہ اگر نقصان کا اندیشہ ہو تو وضو یا غسل کے بجائے تیمم کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ عام وضو پانی سے ہوتا ہے۔ تیمم گویا مٹی سے وضو کرنا ہے۔ وضو کا مقصد آدمی کے اندر پاکی کی نفسیات پیدا کرنا ہے اور تیمم، وضو نہ کرسکنے کی صورت میں، اس پاکی کی نفسیات کو باقی رکھنے کی ایک مادی تدبیر ہے۔ ’’نماز اس وقت پڑھو جب کہ تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو‘‘ —یہاں یہ آیت شراب کا ابتدائی حکم بتانے کے لیے آئی ہے۔ مگر اسی کے ساتھ وہ نماز کے بارے میں ایک اہم حقیقت کو بھی بتارہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز ایک ایسی عبادت ہے جو فہم وشعور کے تحت ادا کی جاتی ہے۔ نماز محض اس کا نام نہیں ہے کہ کچھ الفاظ اور کچھ حرکات کو صحتِ ادا کے ساتھ دہرایا جائے۔ اسی کے ساتھ نماز میں آدمی کے ذہن کا حاضر رہنا بھی ضروری ہے۔ وہ نماز کو جان کر نماز پڑھے، اپنی زبان اور اپنے جسم سے وہ جس خدا کے سامنے جھکنے کا ارادہ کررہا ہے، اسی خدا کے سامنے اس کی سوچ اور اس کا ارادہ بھی جھک گیا ہو۔ اس کا جسم جس خدا کی عبادت کررہا ہے، اسکا شعور بھی اسی خدا کا عبادت گزار بن جائے۔