An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ نَصِيبًۭا مِّنَ ٱلْكِتَٰبِ يَشْتَرُونَ ٱلضَّلَٰلَةَ وَيُرِيدُونَ أَن تَضِلُّوا۟ ٱلسَّبِيلَ ﴾
“ART THOU NOT aware of those who, having been granted their share of the divine writ, now barter it away for error, and want you [too] to lose your way?”
اللہ کی کتاب کسی گروہ کو اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ اس سے اپنی سوچ اور اپنے عمل کو درست کرے۔ مگر جب آسمانی کتاب کی حامل کوئی قوم زوال کا شکار ہوتی ہے، جیسا کہ یہود ہوئے، توخدا کی کتاب سے وہ ہدایت کے بجائے گمراہی کی غذا لینے لگتی ہے۔ خدا کے احکام اس کے لیے خشک جزئیاتی بحثوں کا موضوع بن جاتے ہیں۔اب اس کے یہاں اعتقادیات کے نام پر فلسفیانہ قسم کی موشگافیاں جنم لیتی ہیں۔ وہ اس کے لیے ایسی سرگرمیوں کی تعلیم دینے والی کتاب بن جاتی ہے جس کا آخرت کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ایسے لوگ اپنی روایتی نفسیات کی وجہ سے ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی ہر بات کو خدا کی بات ثابت کریں وہ اپنے عمل کا دینی جواز فراہم کرنے کے لیے خدا کی کتاب کو بدل دیتے ہیں۔ خدا کے کلمات کو اس کے موقع ومحل سے ہٹا کروہ اس کی خود ساختہ تشریح کرتے ہیں۔ وہ الفاظ میں الٹ پھیر کرکے اس سے ایسا مفہوم نکالتے ہیں جس کا اصل خدائی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیںہوتا۔ ’’یہود کو کتاب کا کچھ حصہ ملاتھا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان کو خدا کی کتاب کے الفاظ پڑھنے کو ملے مگر خدا کی کتاب پر عمل کرنا جو اصل مقصود تھا، اس سے وہ دور رہے۔ لفظ کے معاملہ میں وہ حامل کتاب بنے رہے مگر عمل کے معاملہ میں انھوںنے عام دنیا دارانہ قوموںکا راستہ اختیار کرلیا۔ مزید یہ کہ عام لوگ دنیاداری کو دنیا داری کے نام پر کرتے ہیں اور انھوں نے یہ ڈھٹائی کی کہ اپنی دنیاداری کے لیے خدا کی کتاب سے سند پیش کرنے لگے۔ پھر ان کی گمراہی اپنی ذات تک نہیں رکی۔ وہ اپنے کو خدا کے دین کا نمائندہ سمجھتے تھے اس لیے جب غیریہودی عربوں نے پیغمبر آخر الزماں کا ساتھ دینا شروع کیا تو یہود اپنی دینداری کا بھرم قائم رکھنے کے لیے خود پیغمبر کے مخالف ہوگئے۔ انھوںنے آپ کی زندگی اور آپ کی تعلیمات میں طرح طرح کے شوشے نکال کر لوگوں کو اس شبہ میں مبتلا کرنا شروع کیا کہ یہ خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہیں بلکہ محض ذاتی حوصلہ کے تحت دین خدا کے عَلَم بردار بن کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ مگر اس معرکہ میںاللہ غیر جانب دار نہیں۔ وہ اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں اپنے وفاداروں کا ساتھ دے گا اور انھیں کامیاب کرکے رہے گا۔ ’’لعنت‘‘ دراصل بے حسی کی آخری صورت ہے۔ آدمی کی بے حسی جب اس نوبت کو پہنچ جائے کہ اس کوحق اور ناحق کی کوئی تمیز نہ رہے تو اسی کو لعنت کہتے ہیں۔