slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 46 من سورة سُورَةُ النِّسَاءِ

An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ مِّنَ ٱلَّذِينَ هَادُوا۟ يُحَرِّفُونَ ٱلْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِۦ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَٱسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍۢ وَرَٰعِنَا لَيًّۢا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًۭا فِى ٱلدِّينِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا۟ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَٱسْمَعْ وَٱنظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًۭا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَٰكِن لَّعَنَهُمُ ٱللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًۭا ﴾

“Among those of the Jewish faith there are some who distort the meaning of the [revealed] words, taking them out of their context and saying, [as it were,] "We have heard, but we disobey," and, "Hear without hearkening,” and, “Hearken thou unto us, (O Muhammad)” - thus making a play with their tongues, and implying that the [true] Faith is false. And had they but said, "We have heard, and we pay heed," and "Hear [us], and have patience with us," it would indeed have been for their own good, and more upright: but God has rejected them because of their refusal to acknowledge the truth - for it is in but few things that they believe.”

📝 التفسير:

اللہ کی کتاب کسی گروہ کو اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ اس سے اپنی سوچ اور اپنے عمل کو درست کرے۔ مگر جب آسمانی کتاب کی حامل کوئی قوم زوال کا شکار ہوتی ہے، جیسا کہ یہود ہوئے، توخدا کی کتاب سے وہ ہدایت کے بجائے گمراہی کی غذا لینے لگتی ہے۔ خدا کے احکام اس کے لیے خشک جزئیاتی بحثوں کا موضوع بن جاتے ہیں۔اب اس کے یہاں اعتقادیات کے نام پر فلسفیانہ قسم کی موشگافیاں جنم لیتی ہیں۔ وہ اس کے لیے ایسی سرگرمیوں کی تعلیم دینے والی کتاب بن جاتی ہے جس کا آخرت کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ایسے لوگ اپنی روایتی نفسیات کی وجہ سے ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی ہر بات کو خدا کی بات ثابت کریں وہ اپنے عمل کا دینی جواز فراہم کرنے کے لیے خدا کی کتاب کو بدل دیتے ہیں۔ خدا کے کلمات کو اس کے موقع ومحل سے ہٹا کروہ اس کی خود ساختہ تشریح کرتے ہیں۔ وہ الفاظ میں الٹ پھیر کرکے اس سے ایسا مفہوم نکالتے ہیں جس کا اصل خدائی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیںہوتا۔ ’’یہود کو کتاب کا کچھ حصہ ملاتھا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان کو خدا کی کتاب کے الفاظ پڑھنے کو ملے مگر خدا کی کتاب پر عمل کرنا جو اصل مقصود تھا، اس سے وہ دور رہے۔ لفظ کے معاملہ میں وہ حامل کتاب بنے رہے مگر عمل کے معاملہ میں انھوںنے عام دنیا دارانہ قوموںکا راستہ اختیار کرلیا۔ مزید یہ کہ عام لوگ دنیاداری کو دنیا داری کے نام پر کرتے ہیں اور انھوں نے یہ ڈھٹائی کی کہ اپنی دنیاداری کے لیے خدا کی کتاب سے سند پیش کرنے لگے۔ پھر ان کی گمراہی اپنی ذات تک نہیں رکی۔ وہ اپنے کو خدا کے دین کا نمائندہ سمجھتے تھے اس لیے جب غیریہودی عربوں نے پیغمبر آخر الزماں کا ساتھ دینا شروع کیا تو یہود اپنی دینداری کا بھرم قائم رکھنے کے لیے خود پیغمبر کے مخالف ہوگئے۔ انھوںنے آپ کی زندگی اور آپ کی تعلیمات میں طرح طرح کے شوشے نکال کر لوگوں کو اس شبہ میں مبتلا کرنا شروع کیا کہ یہ خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہیں بلکہ محض ذاتی حوصلہ کے تحت دین خدا کے عَلَم بردار بن کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ مگر اس معرکہ میںاللہ غیر جانب دار نہیں۔ وہ اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں اپنے وفاداروں کا ساتھ دے گا اور انھیں کامیاب کرکے رہے گا۔ ’’لعنت‘‘ دراصل بے حسی کی آخری صورت ہے۔ آدمی کی بے حسی جب اس نوبت کو پہنچ جائے کہ اس کوحق اور ناحق کی کوئی تمیز نہ رہے تو اسی کو لعنت کہتے ہیں۔