An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أُو۟لَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ لَعَنَهُمُ ٱللَّهُ ۖ وَمَن يَلْعَنِ ٱللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُۥ نَصِيرًا ﴾
“It is they whom God has rejected: and he whom God rejects shall find none to succour him.”
آسمانی کتاب کی حامل کسی قوم پر جب زوال آتا ہے تو وہ عمل کے بجائے خوش عقیدگی کی سطح پر جینے لگتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے درمیان جبت يعني توہمات خوب پھیلتے ہیں۔ جو چیز حقیقی عمل کے ذریعے ملتی ہے اس کو وہ عملیات اور فرضی عقیدوں اور سفلی اعمال کے راستے سے پانے کی کوشش شروع کردیتی ہے۔ ایسے لوگ دین کے معاملہ کو ’’پاک کلمات‘‘اور ’’بابرکت نسبتوں‘‘ کا معاملہ سمجھ لیتے ہیں جس کے محض زبانی تلفظ یا رسمی تعلق سے معجزاتی واقعات ظاہر ہوتے ہوں۔ اسی کے ساتھ ان کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ زبان سے دین کا نام لیتے ہوئے اپنی عملی زندگی کو طاغوت يعني شیطان کے حوالے کردیتے ہیں۔ وہ حقیقی زندگی میں نفس کی خواہشات اور شیطان کی ترغیبات پر چل پڑتے ہیں مگر اسی کے ساتھ اپنے اوپر دین کا لیبل لگا کر سمجھتے ہیں کہ جو کچھ وہ کرنے لگیں وہی خدا کا دین ہے۔ ایسی حالت ميں جب ان کے درمیان بے آمیز حق کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ سب سے زیادہ اس کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان کی دینی حیثیت کی نفی کررہی ہے۔ منكرينِ حق کا وجود ان کے لیے اس قسم کا چیلنج نہیں ہوتا اس لیے منكروںکے معاملہ میں وہ نرم ہوتے ہیں مگر حق کے داعی کے لیے ان کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیںہوتا۔ ان کے اندر حاسدانہ آگ بھڑک اٹھتی ہے کہ جب دین کے اجارہ دار ہم تھے تو دوسرے کسی شخص کو دین کی نمائندگی کا درجہ کیسے مل گیا۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ خدا آدمی کی قلبی استعداد کی بنیاد پر کسی کو اپنے دین کا نمائندہ چنتا ہے، نہ کہ نمائشی چیزوں کی بنیاد پر۔ لعنت یہ ہے کہ آدمی اللہ کی رحمتوں اور نصرتوں سے بالکل دور کردیا جائے۔ کھانا اور پانی بند ہونے سے جس طرح آدمی کی مادی زندگی ختم ہوجاتی ہے اسی طرح خدا کی نصرت سے محرومی کے بعد آدمی کی ایمانی زندگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ لعنت زدہ آدمی لطیف احساسات کے اعتبار سے اس طرح ایک ختم شدہ انسان بن جاتا ہے کہ اس کے اندر حق اور ناحق کی تمیز باقی نہیں رہتی۔ کھلی کھلی نشانیاں سامنے آنے کے بعد بھی اس کو اعتراف کی توفیق نہیں ہوتی۔ وہ لایعنی شوشوں اور واقعی دلائل کے درمیان فرق نہیں کرتا۔