An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ۞ إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا۟ ٱلْأَمَٰنَٰتِ إِلَىٰٓ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ ٱلنَّاسِ أَن تَحْكُمُوا۟ بِٱلْعَدْلِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِۦٓ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ سَمِيعًۢا بَصِيرًۭا ﴾
“BEHOLD, God bids you to deliver all that you have been entrusted with unto those who are entitled thereto, and whenever you judge between people, to judge with justice. Verily, most excellent is what God exhorts you to do: verily, God is all-hearing, all-seeing!”
ہر ذمہ داری ایک امانت ہے اور اس کو ٹھیک ٹھیک اداکرنا ضروری ہے۔ اسی طرح جب کسی سے معاملہ پڑے تو آدمی کو چاہیے کہ وہ وهي کرے جو انصاف کا تقاضا ہو، خواہ معاملہ دوست کا ہو یا دشمن کا۔ اگر امانت داری اور انصاف کا طریقہ بظاہر اپنے فائدوں اور مصلحتوں کے خلاف نظر آئے تب بھی اس کو انصاف اور سچائی ہی کے طریقے پر قائم رہنا ہے۔ کیوں کہ بہتری ا س میں ہے جو اللہ بتائے، نہ کہ اس میں جو ہمارے نفس کو پسند ہو۔ جهاں كهيں مسلم حکومت قائم هے وهاں كے مسلمانوں كو چاهيے كه وه اس كے قوانين كي پاسداري كريں اور اگر حکومتی معاملات میں پرامن طور پر حصہ لینے کا موقع ہو تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس میں حصہ لیں۔ ایسے مواقع نہ ہونے کی شکل میں، یعنی جهاں اسلامي حكومت قائم نهيں هے تو وهاں وه اپنے اندر كے قابلِ اعتماد افراد کو اپنا سربراہ بنالیں اور ان کی ہدایات لیتے ہوئے دینی زندگی گزاریں۔ جب کسی معاملہ میں اختلاف ہو تو ہر فریق پر لازم هے کہ وہ اس بات کو مان لے جو اللہ اور رسول کی طرف سے آرہی ہو۔ہر آدمی کو اختلاف رائے کی آزادی ہے مگر اجتماعی فیصلہ کو نہ ماننے کی آزادی کسی کو بھی حاصل نہیں۔ اجتماعی نظام مسلم معاشرہ کی اجتماعی ضرورت ہے۔ مدینہ کے ابتدائی زمانہ میں اختلافی معاملات میں فیصلہ لینے کے لیے بیک وقت دو عدالتیں پائی جاتی تھیں۔ ایک، یہودي سرداروں کی جو پہلےسے چلی آرہی تھی۔ دوسری، رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو ہجرت کے بعد قائم ہوئی۔ مسلمانوں میں جو لوگ اپنے مفاد کی قربانی کی قیمت پر دینداربننے کے لیے تیار نہ تھے وہ ایسا کرتے کہ جب ان کو اندیشہ ہوتا کہ ان کا مقدمہ کمزور ہے اور وہ رسولِ خدا کی عدالت سے اپنے موافق فیصلہ نہ لے سکیں گے تو وہ کعب بن اشرف یہودی کی عدالت میں چلے جاتے۔ یہ بات سراسر ایمان کے خلاف ہے ۔ آدمی اگر اللہ کے فیصلہ پر راضی نہ ہو بلکہ اپنی پسند کافیصلہ لینا چاہے تو اس کا ایمان کا دعویٰ جھوٹا ہے، خواہ وہ اپنے رویہ کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے کتنے ہی خوب صورت الفاظ اپنے پاس رکھتا ہو۔ تاہم ایسے لوگوں سے نہ الجھتے ہوئے ان کو مؤثر انداز میں نصیحت کرنے کا کام پھر بھی جاری رہنا چاہیے۔