slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 69 من سورة سُورَةُ النِّسَاءِ

An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ فَأُو۟لَٰٓئِكَ مَعَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ ٱلنَّبِيِّۦنَ وَٱلصِّدِّيقِينَ وَٱلشُّهَدَآءِ وَٱلصَّٰلِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُو۟لَٰٓئِكَ رَفِيقًۭا ﴾

“For, all who pay heed unto God and the Apostle shall be among those upon whom God has bestowed His blessings: the prophets, and those who never deviated from the truth, and those who [with their lives] bore witness to the truth, and the right­eous ones: and how goodly a company are these!”

📝 التفسير:

رسول اس لیے نہیں آتا کہ لوگ بس اس کے عقیدت مند ہوجائیں اور اس کی بارگاہ میں الفاظ کے گلدستے پیش کرتے رہیں۔ رسول اللہ اس لیے آتا ہے کہ آدمی اس سے اپنی زندگی کا طریقہ معلوم کرے اور اس پر عملاً کاربند ہو۔ اس معاملہ میں آدمی کو اتنازیادہ شدید ہونا چاہیے کہ نازک مواقع پر بھی وہ رسول اللہ کی اطاعت سے نہ ہٹے۔ جب دوآدمیوں کا مفاد ایک دوسرے سے ٹکرا جائے اور دو آدمیوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف تلخی ابھر آئے اس وقت بھی آدمی کو اپنے نفس کو دبانا ہے اور بالارادہ اپنے كو رسول والے طریقہ کا پابند بنانا ہے۔ نزاع کے موقع پر جو شخص رسول کی رہنمائی کو قبول کرے وہی رسول کو ماننے والا ہے۔ حتی کہ رسول کا طریقہ اپنے ذوق اور اپنی مصلحت کے خلاف ہو تب بھی وہ دل کی رضا مندی کے ساتھ اس کو قبول کرلے۔ وہ اپنے احساس کو اتنا زندہ رکھے کہ اگر وقتی طورپر کبھی اس سے غلطی ہوجائے تو وہ جلد ہی چونک اٹھے۔ وہ جان لے کہ رسول کو چھوڑ کر وہ شیطان کے پیچھے چل پڑا تھا۔ وہ فوراً پلٹے اور معافی کا طالب ہو۔ جو شخص نفسیاتی جھٹکوں کے مواقع پر دین پر قائم نہ رہ سکے اس سے کیا امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ان شدید تر مواقع پر ثابت قدم رہے گا جب کہ وطن کو چھوڑ کر اور جان ومال کی قربانی دے کر آدمی کو اپنے ایمان کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔ نفس پرستی اور مصلحت پسندی کی زندگی اختیار کرنے کے نتیجہ میں آدمی جو سب سے بڑی چیز کھوتا ہے وہ صراط مستقیم ہے۔ یعنی وہ راستہ جس کو پکڑ کر آدمی چلتا رہے یہاں تک کہ اپنے رب تک پہنچ جائے۔ یہ راستہ خدا کی کتاب اور رسول کی سنت میں واضح طورپر موجود ہے۔ مگر آدمی جب اپنی سوچ کو تحفظات کا پابند کرلیتا ہے تو وضاحت کے باوجود وہ صراطِ مستقیم کو دیکھ نہیں پاتا۔وہ دین کا مطالعہ اپنی خواہشوں اور مصلحتوں کے زیر اثر کرتاہے، نہ کہ دين کی بے آمیز صورت میں۔ اس کے ذہن میں اپنے حسب حال دین کا ایک خود ساختہ تصور قائم ہوجاتا ہے۔ وہ ایمان کا مدعی ہو کر بھی ایمان سے محروم رہتا ہے۔ ایسے لوگ اس جنت کے مستحق کیسے ہوسکتے ہیں جہاں وہ لوگ بسائے جائیں گے جنھوں نے ہر قسم کی مصلحتوں سے اوپر اٹھ کر دین کو اختیار کیا تھا۔ وہ لوگ جو خدا کے عہد کو پورا کرنے والے ہیں، جو حق کی گواہی آخری حدتک دینے والے ہیں اور جن کی زندگیاں حد درجہ پاکیزہ ہیں۔