An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَمَا لَكُمْ لَا تُقَٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ ٱلرِّجَالِ وَٱلنِّسَآءِ وَٱلْوِلْدَٰنِ ٱلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَآ أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ ٱلْقَرْيَةِ ٱلظَّالِمِ أَهْلُهَا وَٱجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّۭا وَٱجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا ﴾
“And how could you refuse to fight in the cause of God and of the utterly helpless men and women and children who are crying, "O our Sustainer! Lead us forth [to freedom] out of this land whose people are oppressors, and raise for us, out of Thy grace, a protector, and raise for us, out of Thy grace, one who will bring us succour!"”
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ اس لیے یہاں ہر ایک کو عمل کی آزادی ہے۔ یہاں شریر لوگوں کو بھی موقع ہے کہ وہ خدا کے بندوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائیں اور اسی کے ساتھ خدا کے نیک بندوں کو اپنے اقرار ایمان کا ثبوت اس طرح دینا ہے کہ وہ شریر لوگوں کی طرف سے ڈالی جانے والی مصیبتوں کے باوجود ثابت قدم رہیں۔ اہلِ ایمان کو خدا کے دشمنوں کے مقابلہ میں ہر وقت چوکنا رہنا ہے۔ پرامن تدبیروں اور جنگي تیاریوں سے ان کو پوری طرح اپنے بچاؤ کا انتظام کرنا هے۔ ان کو متفرق طورپر بھی اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہے اور مل کر بھی۔ اسی کے ساتھ خود مسلمانوں کی صف میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں ، جیسا کہ غزوۂ احد میں ظاہر ہوا، جو دنیا کے نقصان کا خطرہ مول لیے بغیر آخرت کا سودا کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ ان کاموں میں تو خوب حصہ لیتے ہیں جن میں دنیوی فائدہ کا کوئی پہلو ہو۔ مگر ایسا دینی کام جس میں دنیوی اعتبار سے نقصان کا اندیشہ ہو اس سے علیحدگی کے لیے خوبصورت عذر تلاش کرلیتے ہیں۔ ان کی یہ ذہنیت اس لیے ہے کہ اسلام قبول کرنے کے باوجود عملاً وہ اسی موجودہ دنیا کی سطح پر جی رہے ہیں۔ اگر ان کو یقین ہو کہ اصل اہمیت کی چیز آخرت ہے تو دنیا کی کامیابی وناکامی ان کے لیے ناقابلِ لحاظ بن جائے ۔ اللہ کی راہ کا مجاہد حقیقۃً وہ ہے جو صرف آخرت کا طالب ہو، جو دنیا کے فائدوں اور مصلحتوں کو قربان کرکے اللہ کی راہ میں بڑھے، نہ کہ وہ جو ایسے جہاد کا غازی بننا پسند کرے جس میں کوئی زخم لگے بغیر بڑے بڑے کریڈٹ ملتے ہوں، جس میں الفاظ بول کر شہرت وعزت کا مقام حاصل ہوتا ہو۔ خدا کی راہ کی لڑائی وہ ہے جو اس بندۂ خدا کو پیش آئے جو صرف خدا کے لیے اٹھا ہو۔ وہ لوگوں کو جہنم سے ڈرائے اور لوگوں کو جنت کی طرف بلائے۔ کسی سے وہ مادی یا سیاسی جھگڑا نہ چھیڑے۔ پھر بھی شریر لوگ اس سے لڑنے کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ اور شیطان کی راہ میں لڑنے والے وہ لوگ ہیں جو کسی بندۂ خدا سے اس بنا پر لڑ پڑیں کہ اس کی باتوں سے ان کی اَنانیت پر ضرب پڑتی ہے۔ اس کے پیغام کے پھیلاؤ میں ان کو اپنا معاشی یا سیاسی خطرہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کے دلائل کو توڑنے کے لیے وہ جارحیت کے سوا اور کوئی دلیل اپنے پاس نہیں پاتے۔