An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوٓا۟ أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُوا۟ ٱلزَّكَوٰةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ ٱلْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌۭ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ ٱلنَّاسَ كَخَشْيَةِ ٱللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةًۭ ۚ وَقَالُوا۟ رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا ٱلْقِتَالَ لَوْلَآ أَخَّرْتَنَآ إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ قَرِيبٍۢ ۗ قُلْ مَتَٰعُ ٱلدُّنْيَا قَلِيلٌۭ وَٱلْءَاخِرَةُ خَيْرٌۭ لِّمَنِ ٱتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا ﴾
“ART THOU NOT aware of those who have been told, "Curb your hands, and be constant in prayer, and render the purifying dues"? But as soon as fighting [in God's cause] is ordained for them, lo, some of them stand in awe of men as one should stand in awe of God - or in even greater awe - and say, "O our Sustainer! Why hast Thou ordained fighting for us? If only Thou hadst granted us a delay for a little while!" Say: "Brief is the enjoyment of this world, whereas the life to come is the best for all who are conscious of God - since none of you shall be wronged by as much as a hair's breadth.”
ہجرت سے پہلے مکہ میںاسلام کے مخالفین مسلمانوں کو بہت ستاتے تھے۔ مارنا پیٹنا، ان کی معاشیات کو تباہ کرنا، ان کو مسجد حرام میں عبادت سے روکنا، ان کو تبلیغ کی اجازت نہ دینا، ان کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرنا، يه سب انھوں نے مسلمانوں کے لیے جائز کرلیا تھا ۔ جو شخص اسلام قبول کرتا اس پر وہ ہر قسم کا دباؤ ڈالتے تاکہ وہ اسلام کو چھوڑ کر اپنے آبائی مذہب کی طرف لوٹ جائے۔ مخالفین اسلام کی اس جارحیت نے مسلمانوں کے لیے اصولاً جائز کردیا تھا کہ وہ ان کے خلاف تلوار اٹھائیں۔ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بار بار جنگ کی اجازت مانگتے۔ مگر آپ ہمیشہ یہ کہتے کہ مجھ کو جنگ کا حکم نہیں دیاگیا۔ تم صبر کرو اور نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے رہو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قبل از وقت کوئی اقدام کرنا اسلام کا طریقہ نہیں۔ مکہ میں مسلمانوں کی اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ اپنے دشمنوں کے خلاف فیصلہ کن اقدام کرسکتے۔ اس وقت مکہ والوں کے مقابلہ میں تلوار اٹھانا اپنی مصیبتوں کو اور بڑھانے کے ہم معنی تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ طاقت ور دشمن جو ابھی تک صرف انفرادی ظلم کررہا ہے اس کو اپنی طرف سے مکمل جنگی کارروائی کرنے کا جواز فراہم کردیا جائے۔ عملی اقدام ہمیشہ اس وقت کیا جاتا ہے جب کہ اس کے لیے ضروری تیاری کرلی گئی ہو۔ اس سے پہلے اہلِ ایمان سے صرف انفرادی احکام کا تقاضا کیا جاتا ہے جو ہر حال میں آدمی کے لیے ضروری ہیں۔ یعنی اللہ سے تعلق جوڑنا، بندوں کے حقوق ادا کرنا اور دین کی راہ میں جو مشکلیں پیش آئیں ان کو برداشت کرنا۔ قرآن میں قربانی کے احکام آئے تو مصلحت پرست لوگوں کو اپنی زندگی کا نقشہ بکھرتا ہوا نظر آیا۔ وہ اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے طرح طرح کی باتیں کرنے لگے۔ احد میں شکست ہوئی تو اس کو وہ رسول کی بے تدبیری کا نتیجہ بتا کر رسول کی رہنمائی کے بارے میں لوگوں کو بدظن کرنے لگے۔ فائدہ والی باتوں کو اللہ کا فضل بتا کر وہ اپنی اسلامیت کا مظاہرہ کرتے اور عملی اسلام سے گریز کے لیے رسول کو غلط ثابت کرتے — خدا کو مان کر آدمی کے لیے ممکن رہتا ہے کہ وہ اپنے نفس پر چلتا رہے۔ مگر خدا کے داعی کو ماننے کے بعد اس کا ساتھ دینا بھی ضروری ہوجاتا ہے جو آدمی کے لیے مشکل ترین کام ہے۔