slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo xhamster/a> jalalive/a>
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 78 من سورة سُورَةُ النِّسَاءِ

An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ أَيْنَمَا تَكُونُوا۟ يُدْرِككُّمُ ٱلْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِى بُرُوجٍۢ مُّشَيَّدَةٍۢ ۗ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌۭ يَقُولُوا۟ هَٰذِهِۦ مِنْ عِندِ ٱللَّهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌۭ يَقُولُوا۟ هَٰذِهِۦ مِنْ عِندِكَ ۚ قُلْ كُلٌّۭ مِّنْ عِندِ ٱللَّهِ ۖ فَمَالِ هَٰٓؤُلَآءِ ٱلْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًۭا ﴾

“Wherever you may be, death will overtake you - even though you be in towers raised high. "Yet, when a good thing happens to them, some [people] say, "This is from God," whereas when evil befalls them, they say, "This is from thee [O fellow­man]!” Say: "All is from God." What, then, is amiss with these people that they are in no wise near to grasping the truth of what they are told?”

📝 التفسير:

ہجرت سے پہلے مکہ میںاسلام کے مخالفین مسلمانوں کو بہت ستاتے تھے۔ مارنا پیٹنا، ان کی معاشیات کو تباہ کرنا، ان کو مسجد حرام میں عبادت سے روکنا، ان کو تبلیغ کی اجازت نہ دینا، ان کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرنا، يه سب انھوں نے مسلمانوں کے لیے جائز کرلیا تھا ۔ جو شخص اسلام قبول کرتا اس پر وہ ہر قسم کا دباؤ ڈالتے تاکہ وہ اسلام کو چھوڑ کر اپنے آبائی مذہب کی طرف لوٹ جائے۔ مخالفین اسلام کی اس جارحیت نے مسلمانوں کے لیے اصولاً جائز کردیا تھا کہ وہ ان کے خلاف تلوار اٹھائیں۔ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بار بار جنگ کی اجازت مانگتے۔ مگر آپ ہمیشہ یہ کہتے کہ مجھ کو جنگ کا حکم نہیں دیاگیا۔ تم صبر کرو اور نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے رہو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قبل از وقت کوئی اقدام کرنا اسلام کا طریقہ نہیں۔ مکہ میں مسلمانوں کی اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ اپنے دشمنوں کے خلاف فیصلہ کن اقدام کرسکتے۔ اس وقت مکہ والوں کے مقابلہ میں تلوار اٹھانا اپنی مصیبتوں کو اور بڑھانے کے ہم معنی تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ طاقت ور دشمن جو ابھی تک صرف انفرادی ظلم کررہا ہے اس کو اپنی طرف سے مکمل جنگی کارروائی کرنے کا جواز فراہم کردیا جائے۔ عملی اقدام ہمیشہ اس وقت کیا جاتا ہے جب کہ اس کے لیے ضروری تیاری کرلی گئی ہو۔ اس سے پہلے اہلِ ایمان سے صرف انفرادی احکام کا تقاضا کیا جاتا ہے جو ہر حال میں آدمی کے لیے ضروری ہیں۔ یعنی اللہ سے تعلق جوڑنا، بندوں کے حقوق ادا کرنا اور دین کی راہ میں جو مشکلیں پیش آئیں ان کو برداشت کرنا۔ قرآن میں قربانی کے احکام آئے تو مصلحت پرست لوگوں کو اپنی زندگی کا نقشہ بکھرتا ہوا نظر آیا۔ وہ اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے طرح طرح کی باتیں کرنے لگے۔ احد میں شکست ہوئی تو اس کو وہ رسول کی بے تدبیری کا نتیجہ بتا کر رسول کی رہنمائی کے بارے میں لوگوں کو بدظن کرنے لگے۔ فائدہ والی باتوں کو اللہ کا فضل بتا کر وہ اپنی اسلامیت کا مظاہرہ کرتے اور عملی اسلام سے گریز کے لیے رسول کو غلط ثابت کرتے — خدا کو مان کر آدمی کے لیے ممکن رہتا ہے کہ وہ اپنے نفس پر چلتا رہے۔ مگر خدا کے داعی کو ماننے کے بعد اس کا ساتھ دینا بھی ضروری ہوجاتا ہے جو آدمی کے لیے مشکل ترین کام ہے۔