An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ ٱلْقُرْءَانَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ ٱللَّهِ لَوَجَدُوا۟ فِيهِ ٱخْتِلَٰفًۭا كَثِيرًۭا ﴾
“Will they not, then, try to understand this Qur’an? Had it issued from any but God, they would surely have found in it many an inner contradiction!”
خدا کے داعی کو ماننا ’’اپنے جیسے انسان‘‘ کو ماننا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی خدا کو مانتا ہے مگر وہ خدا کے داعی کو ماننے پر ر اضی نہیں ہوتا۔ مگرآدمی کا اصل امتحان یہی ہے کہ وہ خدا کے داعی کو پہچانے اور اس كے ساتھ اپنے کو کھڑا کرے۔ داعی کے معاملہ کو جب آدمی خدا کا معاملہ نہ سمجھے تو وہ اس کے بارے میں سنجیدہ بھی نہیں ہوتا۔ سامنے وہ رسمی طورپر ہاں کر دیتا ہے مگر جب الگ ہوتا ہے تو اپنی سابقہ روش پر چلنے لگتا ہے۔ وہ اس کے خلاف ایسی باتیں پھیلاتا ہے جن کا پھیلانا سراسر غیر ذمہ دارانہ فعل ہو۔ جو لوگ خدا کے داعی کے ساتھ اس قسم کا بے پروائی کا سلوک کریں وہ خدا کے یہاں یہ کہہ کر نہیں چھوٹ سکتے کہ ہم نہیں جانتے تھے۔ آدمی اگر ٹھہر کر سوچے تو داعی کی صداقت کو جاننے کے لیے وہ کلام ہی کافی ہے جو خدا نے اس کی زبان پر جاری کیا ہے۔ قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ اس کا کوئی بیان کسی بھی مسلمہ صداقت کے خلاف نہیں۔ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جو انسانی فطرت کے خلاف ہو۔ اس میں کوئی ایسا بیان نہیں جو سابق آسمانی کتابوں کے ذریعہ جانی ہوئی کسی حقیقت سے ٹکراتا ہو۔ اس میں کوئی ایسا اشارہ نہیں جو تجربی علوم سے دریافت شدہ کسی واقعہ کے غیر مطابق ہو۔ حقائقِ واقعی سے یہ مکمل مطابقت اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے آیا ہوا کلام ہے۔ تاہم کسی بھی سچائی کا سچائی نظر آنا اس پر موقوف ہے کہ آدمی سنجیدگی کے ساتھ اس کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ قرآن کا اختلاف کثیر سے خالی ہونا اس شخص کو دکھائی دے گا جو قرآن میں ’’تدبر‘‘ کرے۔ جو شخص تدبر کرنا نہ چاہے اس کے لیے بے معنی اعتراضات نکالنے کا دروازہ اس وقت تک کھلا ہوا ہے جب تک قیامت آکر موجودہ امتحانی حالات کا خاتمہ نہ کردے۔ اسلامی معاشرہ وہ ہے جس کے افراد اتنے خود شناس ہوں کہ وہ دوسرے کے مقابلے میں اپنی نااہلی کو جان لیں۔ وہ کسی معاملہ کو اہل تر شخص کے حوالے کرکے اس کی رہنمائی پر راضی ہوجائیں۔ یہ خود شناسی ہی واحد چیز ہے جو اجتماعی زندگی میں کسی کو شیطان کے پیچھے چل پڑنے سے بچاتی ہے۔ آدمی اگر اپنے آپ کو نہ جانے تو وہ اہلیت نہ رکھتے ہوئے بھی نازک معاملات میں کود پڑتا ہے اور پھر خود بھی ہلاک ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی ہلاک کرتا ہے۔ اجتماعی معاملات میں بولنے سے زیادہ چپ رہنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ شیطان کی مدد کرنا ہے کہ آدمی جو بات سنے اس کو دوسروں کے سامنے دہرانے لگے۔