slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 85 من سورة سُورَةُ النِّسَاءِ

An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ مَّن يَشْفَعْ شَفَٰعَةً حَسَنَةًۭ يَكُن لَّهُۥ نَصِيبٌۭ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَٰعَةًۭ سَيِّئَةًۭ يَكُن لَّهُۥ كِفْلٌۭ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ مُّقِيتًۭا ﴾

“Whoever rallies to a good cause shall have a share in its blessings; and whoever rallies to an evil cause shall be answerable for his part in it: for, indeed, God watches over everything.”

📝 التفسير:

دین داری کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی عملی طورپر جہاں ہے وہیں رہے، وہ اپنی حقیقی زندگی میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔ البتہ کچھ اوپری مظاہر کا اہتمام کرکے سمجھے کہ میں دین دار بن گیا ہوں۔ ایسے دین سے کسی کو ضد نہیں ہوتی۔ لوگ اس کی مخالفت کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ مگر جب دین کے ایسے تقاضے پیش كيے جائیں جو قربانی کا مطالبہ کرتے ہوں، جس میںآدمی کو اپنی بنی بنائی زندگی اجاڑنا پڑے تو اس کے سامنے آنے کے بعد لوگوں میں دو فریق ہوجاتے ہیں۔ ایک طبقہ دعوت کے مخالفین کا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سستے مظاہر کے ذریعہ اپنی دین داری کا سکہ قائم كيے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ قربانی والے دین کے مخالف بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ ایسے دین کو اختیار کرنا ان کو برتری کے مقام سے اترنے کے ہم معنی نظر آتا ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہوتا ہے جس کی فطرت زندہ ہوتی ہے۔ وہ چیزوں کو مفاد اور مصلحت سے اوپر اٹھ کر دیکھتا ہے۔ ایک بات کا حق ثابت ہوجانا ہی اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے کہ وہ اس کو قبول کرلے۔ یہ صورت حال کبھی اتنی سنگین ہوجاتی ہے کہ حق کی تائید وحمایت میں زبان کھولنا جہاد کے ہم معنی بن جاتاہے۔ اس کے برعکس، حق کے بارے میں خاموشی یا مخالفت کا رویہ اختیار کرنا آدمی کو انعام کا مستحق بنا دیتا ہے۔تاہم جہاں تک سچے اہل ایمان کا تعلق ہے ان کو ہر حال میں یہ حکم ہے کہ عام معاشرتی تعلقات کو اس اختلاف سے متاثر نہ ہونے دیں۔ اور ان کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ اختیار نہ کریں۔ مسلمان کا رویہ دوسروں کے رد عمل میں نہیں بننا چاہیے بلکہ اس قسم کی چیزوں کو نظر انداز کرکے بننا چاہیے۔ یہ معاملہ اللہ سے متعلق ہے کہ وہ کس کو کیا بدلہ دے اور کسی کے لیے کیا فیصلہ کرے۔ نازک حالات میں دعوت حق کو زندہ رکھنے کی ضمانت صرف یہ ہوتی ہے کہ کم از کم داعی اپنی ذات کی سطح پر یہ عزم رکھے کہ وہ ہر حال میں اپنے موقف پر قائم رہے گا خواہ کوئی تائید کرنے والا ہو یا نہ ہو۔ایسے حالات میں داعی کا عزم اس کو اللہ کی خصوصی نصرت کا مستحق بنا دیتا ہے۔ اس کی ایک مثال بدر صغریٰ کا غزوہ ہے جو احد کے صرف ایک ماہ بعد پیش آیا۔ اس وقت مدینہ میں ایسی کیفیت چھائی ہوئی تھی کہ صرف ستر آدمی رسول اللہ کے ساتھ نکلے۔ مگر اس مختصر قافلہ کو اللہ کی یہ خصوصی مدد ملی کہ مکہ والوں پر ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ مقابلہ میں نہ آسکے۔ خدا کی سنت ہے کہ وہ منکرین کا زورتوڑے۔ مگر خدا کی یہ سنت اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب کہ دین کے علم بردار اپنی بے سروسامانی کے باوجود خدا کے دشمنوں کا زور توڑنے کے لیے نکل پڑے ہوں۔