An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ۞ فَمَا لَكُمْ فِى ٱلْمُنَٰفِقِينَ فِئَتَيْنِ وَٱللَّهُ أَرْكَسَهُم بِمَا كَسَبُوٓا۟ ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَهْدُوا۟ مَنْ أَضَلَّ ٱللَّهُ ۖ وَمَن يُضْلِلِ ٱللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُۥ سَبِيلًۭا ﴾
“How, then, could you be of two minds about the hypocrites, seeing that God [Himself] has disowned them because of their guilt? Do you, perchance, seek to guide those whom God has let go astray - when for him whom God lets go astray thou canst never find any way?”
آدمی جب اللہ کے دین کو اختیار کرتا ہے تو اس کے بعد اس کی زندگی میں بار بار ایسے مرحلے آتے ہیں جہاں یہ جانچ ہوتی ہے کہ وہ اپنے فیصلہ میں سنجیدہ ہے یا نہیں۔ اسی سلسلے کا ایک امتحان ’’ہجرت‘‘ ہے۔ یعنی دین کی راہ میں جب دنیا کے فائدے اور مصلحتیں حائل نظر آئیں تو فائدوں اور مصلحتوں کو چھوڑ کر اللہ کی طرف بڑھ جانا۔ حتی کہ اگر رشتہ دار اور گھر بار کو چھوڑنے کی ضرورت پیش آئے تو اس کو بھی چھوڑ دینا۔ ایسا نازک موقع پیش آنے کی صورت میں اگر ایسا ہو کہ آدمی اپنے فائدوں اور مصلحتوں کو نظر انداز کرکے حق کی طرف بڑھے تو اس نے حق کے ساتھ اپنے قلبی تعلق کو پختہ کیا۔ اس کے برعکس، اگر ایسا ہو کہ ایسے موقع پر آدمی اپنے فائدوں اور مصلحتوں سے لپٹا رہے تو اس نے حق کے ساتھ اپنے قلبی تعلق کو کمزور کیا۔ جو شخص پہلی راہ پر چلے اس کے اندر حق کی مزید قبولیت کا مادہ پیدا ہوتا ہے، وہ برابر حق کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔ اور جو شخص دوسری راہ اختیار کرے اس کے اندر حق کی قبولیت کا مادہ گھٹتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اتنا بے حس ہوجاتا ہے کہ اس کے اندر حق کو قبول کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی۔ جب دین کے سخت تقاضے سامنے آتے ہیں تو لوگوں میں مختلف گروہ بن جاتے ہیں۔ کوئی مخلصین کا ہوتا ہے اور کوئی مخالفین کا۔ اور کچھ ایسے لوگوں کا جو ظاہر میں حق سے قریب مگر اندر سے اس سے دور ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں ضروری ہے کہ اہلِ ایمان ہر ایک سے ا س کے حسب حال معاملہ کریں۔ وہ فتنہ کے استیصال میں سخت اور اخلاقی ذمہ داریوں کو نبھانے میں نرم ہوں۔ وہ کمزوروں کے ساتھ رعایت کا سلوک کریں۔ دوسروں سے متاثر ہونے کے بجائے خود ان کو متاثر کرنے کی کوشش کریں۔ کسی کو اگر اللہ خاموش کرکے بٹھا دے تو اس سے بلا ضرورت لڑائی نہ چھیڑیں۔