An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلْيَخْشَ ٱلَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا۟ مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةًۭ ضِعَٰفًا خَافُوا۟ عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَلْيَقُولُوا۟ قَوْلًۭا سَدِيدًا ﴾
“And let them stand in awe [of God], those [legal heirs] - who, if they [themselves] had to leave behind weak offspring, would feel fear on their account - and let them remain conscious of God, and let them speak [to the poor] in a just manner.”
مال نہ عیش کے لیے ہے اور نہ اظہار فخر کے لیے۔ وہ آدمی کے لیے زندگی کا ذریعہ ہے۔ وہ دنیا میں اس کے قیام وبقا کا سامان ہے۔ مال کا ذریعۂ زندگی ہونا ایک طرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کو بذات خود مقصود بنا لینا درست نہیں۔ دوسرے یہ کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ مال کو ضائع ہونے سے بچایا جائے اور اس کو اس کے حق دار تک پہنچانے کا پورا اہتمام کیا جائے۔ کسی کے مال کو ٹھیک ٹھیک ادا نہ کرنا گویا خدا کے اس انتظام میں فساد ڈالنا ہے جو خدا نے اپنے بندوں کی رزق رسانی کے لیے کیا۔ یتیم کسی سماج کا سب سے کمزور حصہ ہوتا ہے اس ليے اس کے مال کی حفاظت اور اس کے معاملہ میں ہر قسم کے ظلم سے اپنے کو بچانا اور بھی زیادہ ضروری ہے۔ حتی کہ یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی انصاف کے مطابق ان کے ساتھ جو معاملہ کرے اس کو لکھ کر اس پر گواہی لے لے تاکہ سماج کے اندر شکایت اور اختلاف کی فضا پیدا نہ ہو اور وہ لوگوں کے سامنے بری الذمہ ہوسکے۔ جب بھی آدمی کے ہاتھ میں کسی کا معاملہ ہو تو اس کو یہ سمجھ کر معاملہ کرنا چاہیے کہ اس کی ہر کوتاہی اللہ کے علم میں ہے۔ صاحب معاملہ اپنی کمزوری کی وجہ سے خواہ اس کے خلاف کچھ نہ کرسکے مگر خدا اس کو ضرور قیامت کے دن پکڑے گا اور اگر اس نے حق کے خلاف معاملہ کیا ہے تو وہ اس کو سخت سزا دے گا اور اس کے لیے کسی طرح بھی خدا کی سزا سے بچنا ممکن نہ ہوگا۔ دنیا میں کمزور کا حق دبا کر آدمی خوش ہوتا ہے۔ مگر ہر ناجائز مال جو آدمی اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے، وہ گویا اپنے پیٹ میں آگ ڈال رہا ہے۔دنیا میں ایسے مال کا آگ ہونا بظاہر محسوس نہیں ہوتا مگر آخرت میں یہ حقیقت کھل جائے گی۔ یہاں آدمی کو عمل کی آزادی ضرور دی گئی ہے مگر نتیجہ آدمی کے اپنے اختیار میں نهيں۔ جو شخص اپنے کو برے انجام سے بچانا چاہتا ہے اس کو دوسروں کے ساتھ بھی برا نہیں کرنا چاہیے۔ آدمی کو چاہيے کہ وہ دوسروں کے لیے نفع بخش بنے، وہ اپنی استعداد کے مطابق دوسروں کو دے۔ اگر کوئی شخص دینے کی حیثیت میںنہیں ہے توآخری اسلامی درجہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کا دل نہ دکھائے، وہ اپنی زبان کھولے تو سیدھی اور سچی بات کہنے کے لیے کھولے، ورنہ خاموش رہے۔