An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًۭا مُّتَعَمِّدًۭا فَجَزَآؤُهُۥ جَهَنَّمُ خَٰلِدًۭا فِيهَا وَغَضِبَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُۥ وَأَعَدَّ لَهُۥ عَذَابًا عَظِيمًۭا ﴾
“But whoever deliberately slays another believer, his requital shall be hell, therein to abide; and God will condemn him, and will reject him, and will prepare for him awesome suffering.”
ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے جو حقوق ہیں ان میں سب سے بڑا حق یہ ہے کہ وہ اس کی جان کا احترام کرے۔ اگر ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو قتل کردے تو اس نے سب سے بڑا معاشرتی جرم کیا۔ ایک شخص جب دوسرے شخص کو قتل کرتا ہے تو وہ اس کے اوپر آخری ممکن وار کرتا ہے۔ نیز یہ وہ جرم ہے جس کے بعد مجرم کے لیے اپنے جرم کی تلافی کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ قتل عمد کی سزا خلود فی النار ہے۔ جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر مارڈالے اس سے اللہ اتنا غضب ناک ہوتا ہے کہ اس کو ملعون قرار دے کر اس کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیتا ہے۔ البتہ قتل خطا کا جرم ہلکا ہے۔ کوئی شخص کسی مسلمان کو غلطی سے مارڈالے، اس کے بعد اس کو غلطی کا احساس ہو وہ اللہ کے سامنے روئے گڑگڑائے اور مقررہ قاعدہ کے مطابق اس کی تلافی کرے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردے گا۔ غلطی کے بعد مال خرچ کرنا یا مسلسل روزے رکھنا گویا خود اپنے ہاتھوں اپنے کو سزا دینا ہے۔جب آدمی کے اوپر شدت سے یہ احساس طاری ہوتا ہے کہ اس سے غلطی ہوگئی تو وہ چاہتا ہے کہ اپنے اوپر اصلاحی عمل کرے۔ اللہ نے بتایا کہ ایسی حالت میں آدمی کو اپنی اصلاح کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ یہاں اصلاً قتل کا حکم بتایا گیاہے۔ تاہم اسی نوعیت کے دوسرے معاشرتی جرائم بھی ہیں اور مذکورہ حکم سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان دوسری چیزوں کے بارے میں شریعت کا تقاضا کیا ہے۔ ایک مسلمان کا فرض جس طرح یہ ہے کہ وہ اپنے بھائی کو زندگی سے محروم کرنے کی کوشش نہ کرے، اسی طرح ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق بھی ہے کہ وہ اس کو بے عزت نہ کرے۔ اس کا مال نہ چھینے۔ اس کو بے گھر نہ کرے۔ اس کے روزگار میں خلل نہ ڈالے۔ اس کے سکون کو غارت کرنے کا منصوبہ نہ بنائے۔ وہ چیزیں جو اس کے لیے زندگی کے اثاثہ کی حیثیت رکھتی ہیں، ان میں سے کسی چیزکو اس سے چھیننے کی کوشش نہ کرے۔ ایک آدمی اگر غلطی سے ایسا کوئی فعل کربیٹھے جس سے اس کے مسلمان بھائی کو اس قسم کا کوئی نقصان پہنچ جائے تو اس کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہونا چاہیے اور غلطی کے احساس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اللہ سے معافی مانگے اور اپنے بھائی کے نقصان کی تلافی کرے۔ اس کے برعکس اگر ایسا ہو کہ آدمی قصداً ایسی کارروائی کرے جس کا سوچا سمجھا مقصد اپنے بھائی کو نقصان پہنچانا اور اس کو پریشان کرنا ہو تو درجہ کے فرق کے ساتھ یہ بھي اسی نوعیت کا جرم ہے جیسا قتل عمد۔