slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 95 من سورة سُورَةُ النِّسَاءِ

An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ لَّا يَسْتَوِى ٱلْقَٰعِدُونَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُو۟لِى ٱلضَّرَرِ وَٱلْمُجَٰهِدُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ بِأَمْوَٰلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ ٱللَّهُ ٱلْمُجَٰهِدِينَ بِأَمْوَٰلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى ٱلْقَٰعِدِينَ دَرَجَةًۭ ۚ وَكُلًّۭا وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَ ٱللَّهُ ٱلْمُجَٰهِدِينَ عَلَى ٱلْقَٰعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًۭا ﴾

“SUCH of the believers as remain passive - other than the disabled - cannot be deemed equal to those who strive hard in God's cause with their possessions and their lives: God has exalted those who strive hard with their possessions and their lives far above those who remain passive. Although God has promised the ultimate good unto all [believers], yet has God exalted those who strive hard above those who remain passive by [promising them] a mighty reward -”

📝 التفسير:

عرب کے مخالف قبائل میں کچھ ایسے افراد تھے جو اندر مسلمان تھے مگر ہجرت کرکے ابھی اپنے قبیلہ سے کٹے نہیں تھے۔ ایک غزوہ میں ایسا ایک شخص مسلمان کی تلوار کی زد میں آگیا۔اس نے ’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر ظاہر کیا کہ میں تمھارا دینی بھائی ہوں۔ بعض پر جوش مسلمانوں نے پھر بھی اس کو قتل کردیا۔ انھوں نے سمجھا کہ یہ مسلمان نہیں ہے اور محض اپنے کو بچانے کی خاطر السلام علیکم کہہ رہا ہے۔ مگر السلام علیکم کہنے کی حد تک بھی کوئی شخص مسلمان ہو تو اس پر ہاتھ اٹھانا جائز نہیں۔ حتی کہ جنگ کے موقع پر بھی نہیں جب کہ یہ اندیشہ ہو کہ دشمن اس سے فائدہ اٹھائے گا۔ کسی مسلمان کا ماراجانا اللہ کے نزدیک اتنا بڑا حادثہ ہے کہ ساری دنیا کا فنا ہوجانا بھی اس کے مقابلہ میں کم ہے (لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ) سنن الترمذي، حديث نمبر 1395۔ جب بھی کوئی شخص اس قسم کا اسلامی جوش دکھاتا ہے کہ وہ دوسرے آدمی کی اسلامیت کو ناقابلِ تسلیم قرار دے کر اس کو سزا دینے پر اصرار کرتا ہے تو اس کے پیچھے ہمیشہ دنیوی محرکات ہوتے ہیں۔ کبھی کوئی مادی لالچ، کبھی انتقام کی آگ، کبھی اپنے کسی حریف کو میدان سے ہٹانے کا شوق، بس اس قسم کے جذبات ہیں جو اس کے باعث بنتے ہیں۔ اگر آدمی کے سینہ میں اللہ سے ڈرنے والا دل ہو تو وہ اسلام کا اظہار کرنے والے کے الفاظ کو قبول کرلے گا اور اس کے معاملہ کو اللہ کے حوالے کرکے خاموش ہوجائے گا۔ عمل کے لحاظ سے مسلمانوں کے دو درجے ہیں۔ ایک وہ لوگ جو فرائض کے دائرہ میں اسلامی زندگی اختیار کریں۔ وہ اللہ کی عبادت کریں او رحرام و حلال کے حدود کا لحاظ کرتے ہوئے زندگی گزاریں۔ دوسرے لوگ وہ ہيں جو قربانی کی سطح پر اسلام کو اختیار کریں۔ وہ خود اسلام کو اپناتے ہوئے دوسروں کو بھی اسلام پر لانے کی کوشش کریں اور اس راہ کی مصیبتوں کو برداشت کریں۔ وہ اسلام کے محاذ پر اپنی جان ومال کو لے کر حاضر ہوجائیں۔ وہ فرائض کے حدود میں نہ ٹھہریں بلکہ فرائض سے آگے بڑھ کر اپنے آپ کو اسلام کے لیے پیش کردیں۔ یہ دونوں ہی گروہ مخلص ہیں اور دونوں اللہ کی رحمتوں میں اپنا حصہ پائیںگے۔ مگر دوسرے گروہ کا معاملہ بنيادی طورپر الگ ہے۔ انھوں نے ناپ کر خدا کی راہ میں نہیں دیا اس لیے خدا بھی ان کو ناپ کر نہیں دے گا۔ انھوں نے مصلحتوں کی پروا کیے بغیر خدا کے مشن میں اپنے آپ کو شریک کیا اس لیے خدابھي پروا کیے بغیر ان کو اپنی رحمتوں میں لے لے گا۔