An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ إِنَّ ٱلَّذِينَ تَوَفَّىٰهُمُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ ظَالِمِىٓ أَنفُسِهِمْ قَالُوا۟ فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا۟ كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ قَالُوٓا۟ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ ٱللَّهِ وَٰسِعَةًۭ فَتُهَاجِرُوا۟ فِيهَا ۚ فَأُو۟لَٰٓئِكَ مَأْوَىٰهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرًا ﴾
“Behold, those whom the angels gather in death while they are still sinning against themselves, [the angels] will ask, "What was wrong with you?'' They will answer: "We were too weak on earth." [The angels] will say: "Was, then, God's earth not wide enough for you to forsake the domain of evil?" For such, then, the goal is hell - and how evil a journey's end!”
مومن کی فطرت چاہتی ہے کہ اس کو آزاد نہ ماحول ملے جہاں اس کی ایمانی ہستی کے اظہار کے لیے کھلے مواقع ہوں۔ جب بھی ایسا نہ ہو تو آدمی کو چاہیے کہ اپنا ماحول بدل دے۔ اسی کا نام ہجرت ہے۔ ہجرت اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے یہ ہے کہ آدمی اپنے کو غیر موافق فضا سے نکالے اور اپنے کو موافق فضا میں لے جائے۔ ایک ادارہ ہے جس میں بعض شخصیتوں کا زور ہے۔ وہاں رہنے والا ایک آدمی محسوس کرتا ہے کہ میں یہاں شخصیت پرست بن کر تو رہ سکتا ہوں مگر خدا پرست بن کر نہیں رہ سکتا۔ اب اگر وہ آدمی اپنے مفاد کی خاطر ایسے ماحول سے مصالحت کرکے اس میں پڑا رہے اور جو چیز اس کو حق نظر آئے اس کے حق ہونے کا اعلان نہ کرے، یہاں تک کہ اسی حال میں مر جائے تو اس نے اپنی جان پر ظلم کیا۔ اسی طرح کوئی قوم ہے جس کا ایک قومی مذہب ہے۔ وہ اسی شخص کو اعزاز عطا کرتی ہے جو اس کے قوم پرستانہ مذہب کو اپنائے، جو شخص ایسا نہ کرے وہ اس کو قبول کرنے سے انکار کردیتی ہے۔ ایسی حالت میں اگر ایک شخص اس قوم کا ساتھی بنتا ہے اور اسی حال میں اس کی موت آجاتی ہے تو اس نے اپنی جان پر ظلم کیا۔ اسی طرح ایک ماحول میں حق کی دعوت اٹھتی ہے۔ اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ بکھرے ہوئے اہل ایمان اس کی پشت پر جمع ہوں۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو اس کی خدمت میں لگائیں۔ وہ اپنے مال سے اس کی مدد کریں۔ مگر ایمان والے اپنے فائدوںاور مصلحتوں کے خول میں پڑے رہتے ہیں۔ وہ ایسا نہیں کرتے کہ اپنے خول سے باہر آئیں اور حق کے قافلہ میں شریک ہو کر اس کی قوت کا باعث بنیں۔ اگر وہ اسی حال میں اپنی زندگی کے دن پورے کردیتے ہیں تو وہ خدا کے یہاں اس حال میں پہنچیں گے کہ انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا۔ تاہم وہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں جو اس قدر معذور ہوں کہ ان سے کوئی تدبیر نہ بن رہی ہو اور نہ باہر سے ان کے لیے کوئی راہ کھل رہی ہو۔ آدمی اپنے ماحول میں ناموافق حالات دیکھ کرسمجھ لیتا ہے کہ ساری دنیا اس کے لیے ایسی ہی نا موافق ہوگی۔ مگر خدا کی وسیع دنیا میں طرح طرح کے لوگ بستے ہیں۔ یہاں اگر ’’مکہ‘‘ ہے جہاں داعی کو پتھر مارے جاتے ہیں تو یہاں ’’یثرب‘‘ بھی ہے جہاں داعی کا استقبال کیا جاتا ہے۔ اس لیے آدمی کو ماحول سے مصالحت کے بجائے ماحول کی تبدیلی کے اصول کو اپنانا چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ نئے مقام کو اپنا میدان عمل بنانا اس کے لیے نئے امکانات کا دروازہ کھولنے کا سبب بن جائے۔