Ghafir • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَسْبَٰبَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ فَأَطَّلِعَ إِلَىٰٓ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّى لَأَظُنُّهُۥ كَٰذِبًۭا ۚ وَكَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوٓءُ عَمَلِهِۦ وَصُدَّ عَنِ ٱلسَّبِيلِ ۚ وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِى تَبَابٍۢ ﴾
“the means of approach to the heavens - and that [thus] I may have a look at the god of Moses: for, behold, I am indeed certain that he is a liar!” And thus, goodly seemed unto Pharaoh the evil of his own doings, and so he was barred from the path [of truth]: and Pharaoh’s guile did not lead to aught but ruin.”
فرعون نے اپنے وزیر ہامان سے جو بات کہی وہ کوئی سنجیدہ بات نہیں تھی بلکہ محض ایک وقتی تدبیر (کید) کے طور پر تھی۔ اس نے دیکھا کہ رجل مومن کی معقول اور مدلّل تقریر سے دربار کے لوگ متاثر ہورہے ہیں، اس ليے اس نے چاہا کہ ایک شوشہ کی بات نکالے تاکہ حضرت موسیٰ کی دعوت سنجیدہ بحث کا موضوع نہ بنے بلکہ مذاق کا موضوع بن کر رہ جائے۔ ’’بدعملی کا خوشنما بننا‘‘ یہ ہے کہ آدمی کچھ خوش نما الفاظ بول کر حق کو رد کردے۔ یہی آدمی کی گمراہی کی اصل جڑ ہے۔ یعنی حقیقی دلائل کے مقابلہ میں شوشہ کی بات کو اہمیت دینا، کھلی بے راہ روی کو جھوٹی توجیہات میں چھپانے کی کوشش کرنا وغیرہ۔ ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ جو حق محکم دلیل کے اوپر کھڑا ہوا ہو اس کو بےبنیاد شوشے نکال کر مغلوب نہیں کیا جاسکتا۔