Ghafir • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ تَدْعُونَنِى لِأَكْفُرَ بِٱللَّهِ وَأُشْرِكَ بِهِۦ مَا لَيْسَ لِى بِهِۦ عِلْمٌۭ وَأَنَا۠ أَدْعُوكُمْ إِلَى ٱلْعَزِيزِ ٱلْغَفَّٰرِ ﴾
“- [for] you call upon me to deny [the oneness of] God and to ascribe a share in His divinity to aught of which I cannot [possibly] have any knowledge the while I summon you to [a cognition of] the Almighty, the All-Forgiving!”
دربارِ فرعون کے مومن کی یہ تقریر نہایت واضح ہے۔ نیز وہ ایک نمونہ کی تقریر ہے جو یہ بتاتی ہے کہ حق کے داعی کا اندازِ خطاب کیا ہونا چاہیے اور یہ کہ دعوت حق کا اصل نکتہ کیا ہے۔ ’’میں تم کو خداوند عالم کی طرف بلاتا ہوں۔ اور تم جس کی طرف مجھے بلا رہے ہو اس کو پکارنے کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں‘‘— یہ فقرہ رجل مومن کی پوری تقریر کا خلاصہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ فرعون کے دربار میں جو چیز زیر بحث تھی وہ کیا تھی۔ وہ یہ تھی کہ خدا کو پکارا جائے یا انسان کے بنائے ہوئے بتوں کو پکارا جائے۔ رجل مومن نے کہا کہ خدا تو ایک زندہ اور غالب حقیقت ہے، اس کو پکارنا ایک حقیقی معبود کو پکارنا ہے۔ مگر تمھارے اصنام صرف تمھارے وہم کی ایجاد ہیں۔ وہ نہ دنیا میں تمھیں کوئی فائدہ دے سکتے اور نہ آخرت میں۔ جب ان کا کوئی حقیقی وجود ہی نہیں تو ان سے کوئی حقیقی فائدہ کیسے مل سکتا ہے (الْوَثَنَ لَا يَنْفَعُ وَلَا يَضُرُّ)تفسیر ابن کثیر، جلد 7، صفحہ 145