Fussilat • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ ٱلشَّيْطَٰنِ نَزْغٌۭ فَٱسْتَعِذْ بِٱللَّهِ ۖ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ ﴾
“Hence, if it should happen that a prompting from Satan stirs thee up [to blind anger], seek refuge with God: behold, He alone is all-hearing, all-knowing!”
قرآن کی دعوت اللہ کی طرف بلانے کی دعوت ہے۔ انسان کو اس کے رب سے جوڑنا، انسان کو خدا کی یاد میں جینے والا بنانا، انسان کے اندر یہ شعور ابھارنا کہ وہ ایک خدا کو اپنا مرکز توجہ بنالے۔ یہی قرآنی دعوت کا اصل نشانہ ہے۔ اور بلاشبہ اس پکارسےبہتر کوئی پکار نہیں۔ مگر خدا کا داعی صرف وہ شخص بنتا ہے جو اپنی دعوت میں اس حد تک سنجیدہ ہو کہ جو کچھ دوسروں سے منوانا چاہتا ہے اس کو وہ خود سب سے پہلے مان چکا ہو، وہ دوسروں سے جو کچھ کرنے کےلیے کہہ رہا ہے، خود سب سے پہلے اس کا کرنے والا بن جائے۔ داعی کا سب سے بڑا ہتھیار یہ ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ یک طرفہ حسن سلوک کرے۔ دوسرے لوگ برائی کریں تب بھی وہ دوسروں کے ساتھ بھلائی کرے۔ وہ اشتعال کے مقابلہ میں اعراض اور اذیت رسانی کے مقابلہ میں صبر کا طریقہ اختیار کرے۔ یک طرفہ حسن سلوک میں اللہ تعالیٰ نے زبردست تسخیری طاقت رکھی ہے۔ خدا کا داعی خدا کی بنائی ہوئی اس فطرت کو جانتا ہے اور اس کو آخری حد تک استعمال کرتا ہے، خواہ اس کےلیے اس کو اپنے جذبات کو کچلنا پڑے، خواہ اس کی خاطر اپنے اندر پیدا ہونے والے رد عمل کو ذبح کرنے کی نوبت آجائے۔ جب بھی داعی کے اندر اس قسم کا خیال آئے کہ فلاں بات کا جواب دینا ضروری ہے، فلاں ظلم کے خلاف ضرور کارروائی كي جاني چاہيے ورنہ دشمن دلیر ہو کر اور زیادہ زیادتیاں کرے گا تو سمجھ لینا چاہيے کہ یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے۔ مومن اور داعی کا فرض ہے کہ وہ ایسے خیال سے خدا کی پناہ مانگے، نہ کہ اس کے پیچھے دوڑنا شروع کردے۔