Ash-Shura • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَمْ لَهُمْ شُرَكَٰٓؤُا۟ شَرَعُوا۟ لَهُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنۢ بِهِ ٱللَّهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ ٱلْفَصْلِ لَقُضِىَ بَيْنَهُمْ ۗ وَإِنَّ ٱلظَّٰلِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌۭ ﴾
“Is it that they [who care for no more than this world] believe in forces supposed to have a share in God’s divinity, which enjoin upon them as a moral law something that God has never allowed? Now were it not for [God’s] decree on the final judgment, all would indeed have been decided between them [in this world]: but, verily, grievous suffering awaits the evildoers [in the life to come].”
جب ايك بات خدا كي كتاب سے ثابت نه هو، اس كے باوجود آدمي اس كے حق هونے پر اصرار كرے تو اس كا مطلب يه هے كه وه دوسروں كو خدا كے برابر ٹھهرارها هے۔ وه خدا كے سوا دوسروں كو يه حق دے رها هے كه وه انسان كے لیے اس كا دين وضع كريں۔يه ايك بے حد سنگين بات هے۔ حقيقت يه هے كه ’’دين‘‘ كي نوعيت كي كوئي چيز مقرر كرنے كا حق صرف ايك خدا كو هے۔ خدا كے سوا كسي اور كو يه حق دينا كھلا هوا شرك هے۔ اور شرك ايك ايسا جرم هے جو خدا كے يهاں كسي طرح معاف هونے والا نهيں۔ ’’ميں تم سے كوئي بدله نهيں چاهتا مگر يه كه قرابت داري كي محبت‘‘ —يه بات پيغمبر كي زبان سے اس وقت كهلائي گئي جب كه آپ كے قبيله قريش كے لوگ آپ كي دعوت كي راه ميں سخت ترين ركا وٹيں ڈال رهے تھے۔ ان حالات ميں اس كا مطلب يه تھا كه اگر تم ميرا دين قبول نهيں كرتے تو نه كرو مگر كم از كم قرابت داري كا لحاظ كرتے هوئے اذيت رساني سے تو باز رهو۔ بالفاظ ديگر، اگر تم كو مجھ سے مذهبي اختلاف هے تو اپنے اختلاف ميں تم اخلاق اور شرافت كي سطح سے نه گر جاؤ۔ اس طرح گويا بالواسطه انداز ميں يه بتايا گيا كه آپ كي دعوت كے مخالفين صرف مخالفين نهيں هيںبلكه وه اخلاقي مجرم بھي هيں۔ وه اپنے آپ كو اخلاق كي سطح پر غلط ثابت كررهے هيں جس كي اهميت خود ان كے نزديك بھي مسلم هے۔