Ash-Shura • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ تَرَى ٱلظَّٰلِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا۟ وَهُوَ وَاقِعٌۢ بِهِمْ ۗ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ فِى رَوْضَاتِ ٱلْجَنَّاتِ ۖ لَهُم مَّا يَشَآءُونَ عِندَ رَبِّهِمْ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ ٱلْفَضْلُ ٱلْكَبِيرُ ﴾
“[In that life to come,] thou wilt see the evildoers full of fear at [the thought of] what they have earned: for [now] it is bound to fall back upon them. And in the flowering meadows of the gardens [of paradise thou wilt see] those who have attained to faith and done righteous deeds: all that they might desire shall they have with their Sustainer: [and] this, this is the great bounty –”
جب ايك بات خدا كي كتاب سے ثابت نه هو، اس كے باوجود آدمي اس كے حق هونے پر اصرار كرے تو اس كا مطلب يه هے كه وه دوسروں كو خدا كے برابر ٹھهرارها هے۔ وه خدا كے سوا دوسروں كو يه حق دے رها هے كه وه انسان كے لیے اس كا دين وضع كريں۔يه ايك بے حد سنگين بات هے۔ حقيقت يه هے كه ’’دين‘‘ كي نوعيت كي كوئي چيز مقرر كرنے كا حق صرف ايك خدا كو هے۔ خدا كے سوا كسي اور كو يه حق دينا كھلا هوا شرك هے۔ اور شرك ايك ايسا جرم هے جو خدا كے يهاں كسي طرح معاف هونے والا نهيں۔ ’’ميں تم سے كوئي بدله نهيں چاهتا مگر يه كه قرابت داري كي محبت‘‘ —يه بات پيغمبر كي زبان سے اس وقت كهلائي گئي جب كه آپ كے قبيله قريش كے لوگ آپ كي دعوت كي راه ميں سخت ترين ركا وٹيں ڈال رهے تھے۔ ان حالات ميں اس كا مطلب يه تھا كه اگر تم ميرا دين قبول نهيں كرتے تو نه كرو مگر كم از كم قرابت داري كا لحاظ كرتے هوئے اذيت رساني سے تو باز رهو۔ بالفاظ ديگر، اگر تم كو مجھ سے مذهبي اختلاف هے تو اپنے اختلاف ميں تم اخلاق اور شرافت كي سطح سے نه گر جاؤ۔ اس طرح گويا بالواسطه انداز ميں يه بتايا گيا كه آپ كي دعوت كے مخالفين صرف مخالفين نهيں هيںبلكه وه اخلاقي مجرم بھي هيں۔ وه اپنے آپ كو اخلاق كي سطح پر غلط ثابت كررهے هيں جس كي اهميت خود ان كے نزديك بھي مسلم هے۔