Al-Ahqaf • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَقَدْ مَكَّنَّٰهُمْ فِيمَآ إِن مَّكَّنَّٰكُمْ فِيهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًۭا وَأَبْصَٰرًۭا وَأَفْـِٔدَةًۭ فَمَآ أَغْنَىٰ عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَآ أَبْصَٰرُهُمْ وَلَآ أَفْـِٔدَتُهُم مِّن شَىْءٍ إِذْ كَانُوا۟ يَجْحَدُونَ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا۟ بِهِۦ يَسْتَهْزِءُونَ ﴾
“And yet, We had established them securely in a manner in which We have never established you, [O people of later times;] and We had endowed them with hearing, and sight, and [knowledgeable] hearts: but neither their hearing, nor their sight, nor their hearts were of the least avail to them, seeing that they went on rejecting God’s messages; and [in the end] they were overwhelmed by the very thing which they had been wont to deride.”
قریش کے سرداروں کو جو دنیوی مرتبہ حاصل تھا اس نے انہیں سرکش بنا رکھا تھا۔ ان کو یاد دلایا گیا کہ اپنے پڑوس کی قوم عاد کو دیکھو۔ اس کو تمدنی اعتبار سے تم سے بھی زیادہ بڑا درجہ حاصل تھا۔ اس کے باوجودجب خدا کا فیصلہ آیا تو اس کی ساری بڑائی غارت ہو کر رہ گئی۔ ان چیزوں میں سے کوئی چیز اس کا سہارا نہ بن سکی جن کو انہوں نے اپنا سہارا سمجھ رکھا تھا۔ انسان آخر کار خدا کی بڑائی کے مقابلہ میں چھوٹا ہونے والا ہے۔ مگر دنیا کا نظام کچھ اس طرح بنایا گیا ہے کہ اسی دنیا میں آدمی کو بار بار دوسروں کے مقابلہ میں چھوٹا ہونا پڑتا ہے۔ اس طرح کے واقعات خدا کی نشانیاں ہیں۔ آدمی اگر ان نشانیوں سے سبق لے تو آخرت کے دن چھوٹا کیے جانے سے پہلے وہ خود اپنے آپ کو چھوٹا کرلے۔ وہ آخرت سے پہلے اسی دنیا میں حقیقت پسند بن جائے۔ انسان کے سامنے مختلف قسم کے واقعات خدائی نشانی بن کر ظاہر ہوتے ہیں ۔ مگر وہ اندھا بہرا بنا رہتا ہے۔ وہ ان سے سبق لینے کےلیے تیار نہیں ہوتا۔