Al-Ahqaf • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَلَوْلَا نَصَرَهُمُ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِ ٱللَّهِ قُرْبَانًا ءَالِهَةًۢ ۖ بَلْ ضَلُّوا۟ عَنْهُمْ ۚ وَذَٰلِكَ إِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوا۟ يَفْتَرُونَ ﴾
“But, then, did those [beings] whom they had chosen to worship as deities beside God, hoping that they would bring them nearer [to Him], help them [in the end]? Nay, they forsook them: for that [alleged divinity] was but an outcome of their self-delusion and all their false imagery.”
قریش کے سرداروں کو جو دنیوی مرتبہ حاصل تھا اس نے انہیں سرکش بنا رکھا تھا۔ ان کو یاد دلایا گیا کہ اپنے پڑوس کی قوم عاد کو دیکھو۔ اس کو تمدنی اعتبار سے تم سے بھی زیادہ بڑا درجہ حاصل تھا۔ اس کے باوجودجب خدا کا فیصلہ آیا تو اس کی ساری بڑائی غارت ہو کر رہ گئی۔ ان چیزوں میں سے کوئی چیز اس کا سہارا نہ بن سکی جن کو انہوں نے اپنا سہارا سمجھ رکھا تھا۔ انسان آخر کار خدا کی بڑائی کے مقابلہ میں چھوٹا ہونے والا ہے۔ مگر دنیا کا نظام کچھ اس طرح بنایا گیا ہے کہ اسی دنیا میں آدمی کو بار بار دوسروں کے مقابلہ میں چھوٹا ہونا پڑتا ہے۔ اس طرح کے واقعات خدا کی نشانیاں ہیں۔ آدمی اگر ان نشانیوں سے سبق لے تو آخرت کے دن چھوٹا کیے جانے سے پہلے وہ خود اپنے آپ کو چھوٹا کرلے۔ وہ آخرت سے پہلے اسی دنیا میں حقیقت پسند بن جائے۔ انسان کے سامنے مختلف قسم کے واقعات خدائی نشانی بن کر ظاہر ہوتے ہیں ۔ مگر وہ اندھا بہرا بنا رہتا ہے۔ وہ ان سے سبق لینے کےلیے تیار نہیں ہوتا۔