Al-Ahqaf • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَٱصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُو۟لُوا۟ ٱلْعَزْمِ مِنَ ٱلرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ۚ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوٓا۟ إِلَّا سَاعَةًۭ مِّن نَّهَارٍۭ ۚ بَلَٰغٌۭ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا ٱلْقَوْمُ ٱلْفَٰسِقُونَ ﴾
“REMAIN, then, [O believer,] patient in adversity, just as all of the apostles, endowed with firmness of heart, bore themselves with patience. And do not ask for a speedy doom of those [who still deny the truth]: on the Day when they see [the fulfillment of] what they were promised, [it will seem to them] as though they had dwelt [on earth] no longer than one hour of [an earthly] day! [This is Our] message. Will, then, any be [really] destroyed save iniquitous folk?””
حق کی دعوت دینے والے کو ہمیشہ صبر کی زمین پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ صبر در اصل اس کا نام ہے کہ مدعو کی ایذا رسانیوں کو داعی یک طرفہ طور پر نظر انداز کرے۔ وہ مدعو کے ضد اور انکار کے باوجود مسلسل اس کو دعوت پہنچاتا رہے۔ داعی اپنے مدعو کا ہرحال میں خیر خواہ بنا رہے۔ خواہ مدعو کی طرف سے اس کو کتنی ہی زیادہ ناخوش گواریوں کا تجربہ کیوں نہ ہو رہا ہو۔ یہ یک طرفہ صبر اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر مدعو کے اوپر خدا کی حجت تمام نہیں ہوتی۔ خدا کے تمام پیغمبروں نے ہر زمانہ میں اسی طرح صبر و استقامت کے ساتھ دعوت حق کا کام کیا ہے۔ آئندہ بھی پیغمبروں کی نیابت میں جو لوگ دعوت حق کا کام کریں ان کو اسی نمونہ پر دعوت کا کام کرنا ہے۔ خدا کے یہاں داعی کا مقام صرف انہیں لوگوں کے لیے مقدر ہے جو یک طرفہ برداشت کا حوصلہ دکھا سکیں۔