Al-Ahqaf • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَمْ يَقُولُونَ ٱفْتَرَىٰهُ ۖ قُلْ إِنِ ٱفْتَرَيْتُهُۥ فَلَا تَمْلِكُونَ لِى مِنَ ٱللَّهِ شَيْـًٔا ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ ۖ كَفَىٰ بِهِۦ شَهِيدًۢا بَيْنِى وَبَيْنَكُمْ ۖ وَهُوَ ٱلْغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ ﴾
“Or do they say, “He has invented all this”? Say [O Muhammad]: “Had I invented it, you would not be of the least help to me against God. He is fully aware of that [slander] into which you so recklessly plunge: enough is He as a witness between me and you! And [withal,] He alone is truly-forgiving, a true dispenser of grace.””
قديم عرب ميں قرآن كے مخاطبين قرآن كے پيغام كو يه كهه كر رد كرديتے تھے كه يه همارے اكابر كے دين كے خلاف هے۔ اور چونكه لوگوں كے اوپر اكابر كي عظمت بيٹھي هوئي تھي وه اس كو مان كر قرآن كے پيغام سے متوحش هوجاتے تھے۔ مگر قرآن كا ايك اور پهلو تھا اور وه اس كا ادبي اعجاز تھا۔ هر عربي داں محسوس كررها تھا كه يه ايك غير معمولي كلام هے۔ اس دوسرے پهلو سے قرآن كي اهميت كو گھٹانے كے ليے انھوں نے كهه ديا كه يه ’’سحر‘‘ هے۔ يعني يه جادو بياني كا كرشمه هے نه كه حقيقت بياني كا كمال۔ يه صحيح هے كه بعض انسانوں كے كلام ميں غير معمولي ادبيت هوتي هے مگر انساني كلام كي ادبيت كي ايك حد هے۔ قرآن كا ادبي اعجاز اس حد سے بهت آگے هے۔ قرآن كي ادبي عظمت اس سے زياده هے كه اس كو انساني دماغ كا كرشمه كهاجاسكے۔ جب فريق ثاني ضد پر اتر آئے تو اس وقت ايك سنجيده انسان يه كرتا هے كه وه يه كهه كر چپ هوجاتا هے كه ميرا اور تمھارا معامله الله كے حوالے هے۔ تاهم يه پسپائي نهيں بلكه ايك اقدامي تدبير هے۔ آدمي جب ايك ضدي كے سامنے چپ هوجائے تو وه اپنے آپ كو اس كے سامنے سے هٹا كر خود اس كو اس كے ضمير كے سامنے كھڑا كرديتا هے تاكه اس كے اندر احساس كا كوئي درجه هو تو وه بیدار هوجائے۔