Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا۟ إِلَىٰ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَإِلَى ٱلرَّسُولِ قَالُوا۟ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَآ ۚ أَوَلَوْ كَانَ ءَابَآؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْـًۭٔا وَلَا يَهْتَدُونَ ﴾
“for when they are told, "Come unto that which God has bestowed from on high, and unto the Apostle" - they answer, "Enough for us is that which we found our forefathers believing in and doing." Why, even though their forefathers knew nothing, and were devoid of all guidance?”
روایات میںآتا ہے کہ جب حج کا حکم آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا اے لوگو تم پر حج فرض کیاگیا ہے۔ یہ سن کر قبیلہ بنی اسد کا ایک شخص اٹھا اور کہا اے خدا کے رسول کیا ہر سال کے لیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر سخت غضب ناک ہوئے اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر میں کہہ دیتا ہاں تو ہر سال کے لیے فرض ہوجاتا اور جب فرض ہوجاتا تو تم لوگ ہر سال اس کو کر نہ پاتے اور پھر کفر کا ارتکاب کرتے۔ پس جو میں چھوڑوں اس کو تم بھی چھوڑدو۔ جب میں کسی چیز کا حکم دوں تو اس کو کرو اور جب میں کسی چیز سے روکوں تو اس سے رک جاؤ (سنن الترمذي،حديث نمبر 814 ) غیر ضروری سوالات میں پڑنے کی ممانعت جو نزول قرآن کے وقت تھی وہی آج بھی مطلوب ہے۔ آج بھی صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو حکم جس طرح دیاگیا ہے اس کو اسی طرح رہنے دیاجائے۔ غیر ضروری سوالات قائم کرکے اس کی حدود قیود کو بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو حکم مجمل صورت میں ہے اس کو مفصل بنانا، جو مطلق ہے اس کو مقید کرنا اور جو چیز غیر معین ہے اس کو معین کرنے کے درپے ہونا دین میں ایسا اضافہ ہے جس سے اللہ اور رسول نے منع فرمایا ہے۔ کسی قوم کے جو گزرے ہوئے بزرگ ہوتے ہیں، زمانہ گزرنے کے بعد وہ مقدس حیثیت حاصل کرلیتے ہیں۔ اکثر گمراہیاں انھیں گزرے ہوئے لوگوں کے نام پر ہوتی ہیں۔ حتی کہ اگر وہ بکری اور اونٹ کی تعظیم کا رواج قائم کر گئے ہوں تو اس کو بھی بعد کے لوگ سوچے سمجھے بغیر دہراتے رہتے ہیں۔ جس بگاڑ کی روایت ماضی کے تقدس پر قائم ہوں اس کی جڑیں اتني گہری جمی ہوئی ہوتی ہیں کہ اس سے لوگوں کو ہٹانا سخت دشوار ہوتا ہے۔ اس قسم کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے اوپر اٹھنا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ آدمی کے اندر واقعی معنوں میں یہ یقین پیدا ہوجائے کہ بالآخر اس کو خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ ایسا شخص آج ہی اس حقیقت کو مان لیتا ہے جس کو موت کے بعد ہر آدمی ماننے پر مجبور ہوگا مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔