Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَٰقَهُمْ لَعَنَّٰهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَٰسِيَةًۭ ۖ يُحَرِّفُونَ ٱلْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِۦ ۙ وَنَسُوا۟ حَظًّۭا مِّمَّا ذُكِّرُوا۟ بِهِۦ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَآئِنَةٍۢ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًۭا مِّنْهُمْ ۖ فَٱعْفُ عَنْهُمْ وَٱصْفَحْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ ﴾
“Then, for having broken their solemn pledge, We rejected them and caused their hearts to harden-[so that now] they distort the meaning of the [re-vealed] words, taking them out of their context; and they have forgotten much of what they had been told to bear in mind; and from all but a few of them thou wilt always experience treachery. But pardon them, and forbear: verily, God loves the doers of good.”
بنی اسرائیل سے ان کے پیغمبرکی معرفت خدا پرستانہ زندگی گزرانے کا عہد لیاگیا اور ان کے بارہ قبائل سے بارہ سردار ان کی نگرانی کے لیے مقرر کیےگئے۔ بنی اسرائیل سے جو عہد لیاگیا وہ یہ تھا کہ وہ نماز کے ذریعے اپنے کو اللہ والا بنائیں۔ وہ زکوٰۃ کی صورت میں بندوں کے حقوق ادا کریں۔ پیغمبروں کا ساتھ دے کر وہ اپنے کو اللہ کی پکار کی جانب کھڑا کریں اور اللہ کے دین کی جدوجہد میں اپنا اثاثہ خرچ کریں۔ ان کاموں کی ادائیگی اور اپنے درمیان ان کی نگرانی کا اجتماعی نظام قائم کرنے کے بعد ہی وہ خدا کی نظر میں اس کے مستحق تھے کہ خدا ان کا ساتھی ہو۔ وہ ان کو پاک صاف کرکے اس قابل بنائے کہ وہ جنت کی لطیف فضاؤں میں داخل ہوسکیں۔ جنت کسی کو عمل سے ملتی ہے، نہ کہ کسی قسم کے نسلی تعلق سے۔ اس عہد میں جن اعمال کا ذکر ہے یہی دین کے اساسی اعمال ہیں۔ یہی وہ شاہراہ ہے جو تمام انسانوں کو خدا اور اس کی جنت کی طرف لے جانے والی ہے۔ مگر جب آسمانی کتاب کی حامل قوموں میں بگاڑ آتا ہے تو وہ اس شاہراہ کے دائیں بائیں مڑ جاتی ہیں۔ اب یہ ہوتا ہے کہ خود ساختہ تشریحات کے ذریعہ دین کا تصور بدل دیا جاتا ہے۔ عبادت کے نام پر غیر متعلق بحثیں شروع ہوجاتی ہیں۔ نجات کے ایسے راستے تلاش کرليے جاتے ہیں جو بندوں کے حقوق ادا كيے بغیر آدمی کو منزل تک پہنچا دیں۔ دعوتِ حق کے نام پر ان کے یہاں بے معنیٰ قسم کے دنیوی ہنگامے جاری ہوجاتے ہیں۔ وہ دنیوی اخراجات کی بہت سی مدیں بناتے ہیں اور انھیں کو دین کے لیے خرچ کا نام دے دیتے ہیں۔ بالفاظ دیگر وہ اپنے دنیوی مصالح کے مطابق ایک دین گھڑتے ہیں اور اسی کو خدا کا دین کہنے لگتے ہیں۔ جب کوئی گروہ بگاڑ کی اس نوبت تک پہنچتا ہے تو خدا اپنی توجہ اس سے ہٹا لیتاہے۔ خدا کی توفیق سے محروم ہو کر ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنی خواہشوں کی زبان سمجھتے ہیں اور اسی میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ موت کا فرشتہ آجاتا ہے تاکہ ان کو پکڑ کر خدا کی عدالت میں پہنچا دے۔