slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 14 من سورة سُورَةُ المَائـِدَةِ

Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَمِنَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ إِنَّا نَصَٰرَىٰٓ أَخَذْنَا مِيثَٰقَهُمْ فَنَسُوا۟ حَظًّۭا مِّمَّا ذُكِّرُوا۟ بِهِۦ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ ٱلْعَدَاوَةَ وَٱلْبَغْضَآءَ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ ۚ وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ ٱللَّهُ بِمَا كَانُوا۟ يَصْنَعُونَ ﴾

“And [likewise,] from those who say, "Behold, we are Christians." We have accepted a solemn pledge: and they, too, have forgotten much of what they had been told to bear in mind - wherefore We have given rise among them to enmity and hatred, [to last] until Resurrection Day: and in time God will cause them to understand what they have contrived.”

📝 التفسير:

آسمانی کتاب کی حامل قوموں پر جب بگاڑ آتا ہے تو وہ دین کے محکم حصہ کو چھوڑ کر اس کے غیر محکم حصہ پر دوڑ پڑتی ہیں۔ اس کا نتیجہ دنیا میں اختلاف کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور آخرت میںرسوائی کی صورت میں۔ مسیح علیہ السلام باپ کے بغیر ایک پاکباز خاتون کے بطن سے پیدا ہوئے۔ پیدائش کے بعد انھوں نے اپنی زبان سے اپنا جو تعارف کرایا وہ یہ تھا ’’میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں‘‘۔ اب حضرت مسیح کے بارے میں رائے قائم کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آنجناب نے اپنے بارے میں جو واضح الفاظ فرمائے ہیں انھیں کی پابندی کی جائے اور آپ کو وہی سمجھا جائے جو ان الفاظ سے براہِ راست طورپر معلوم ہوتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس معاملہ میں اپنے قیاس کو دخل دیا جائے اور کہا جائے کہ ’’انسان وہ ہے جو کسی باپ کا بیٹا ہو۔ مسیح کسی باپ کے بیٹے نہ تھے۔ اس لیے وہ خدا کے بیٹے تھے‘‘۔ پہلی رائے کی بنیادخود مسیح کا محکم اور مستند قول ہے۔ اس لیے اگر اس کو اختیار کیا جائے تو اس میں اختلاف پیدا نہ ہو گا۔ جب کہ دوسری رائے کی بنیاد محض انسانی قیاس پر ہے۔ اس لیے جب دوسری رائے کو اختیار کیا جائے گا تو رایوں کا اختلاف شروع ہوجائے گا، جیساکہ مسیح کو ماننے والوں کے ساتھ بعد کے زمانہ میں ہوا۔ آسمانی کتاب کی حامل کسی قوم میں جب بگاڑ آتا ہے تو اس کے اندر اسی قسم کی خرابیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ وہ محکم دین کو چھوڑ کر قیاسی دین پر چل پڑتی ہے۔ یہیں سے اختلاف اور فرقہ بندیوں کا دروزاہ کھل جاتا ہے۔ فقہ اور کلام، روحانیت اور سیاست میں خدا و رسول نے جو کھلے ہوئے احکام ديے ہیں لوگ ان کے سادہ مفہوم پر قانع نہیں رہتے بلکہ بطور خود نئي نئي بحثيں نكالتے هيں۔ كبھي زمانے كے خيالات سے متاثر هو كر، كبھي اپني دنيوي خواهشوں كو ديني جواز عطا كرنے كے ليے، كبھي بزعم خود خدا کے ناقص دین کو کامل بنانے کے لیے، اپنی طرف سے ایسی باتیں دین میں داخل کردی جاتی ہیں جو حقیقۃً دین کا حصہ نہیں ہوتیں۔ اس طرح نئے نئے دینی ایڈیشن تیار ہوجاتے ہیں۔ کوئی روحانی ایڈیشن، کوئی سیاسی ایڈیشن، کوئی اور ایڈیشن۔ ہر ایک کے گرد اس کے موافق ذوق رکھنے والے لوگ جمع ہوتے رہتے ہیں۔ بالآخر ان کا ایک فرقہ بن جاتا ہے۔ ان کی بعد کی نسلیں اس کو اسلام کا ورثہ سمجھ کر اس کی حفاظت شروع کردیتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ وقت آجاتا ہے کہ وہ قیامت تک کبھی ختم نہ ہو۔ کیوں کہ انسان ماضی کو ہمیشہ مقدس سمجھ لیتا ہے اور جو چیز مقدس بن جائے وہ کبھی ختم نہیں ہوتی — مذہب کے نام پر فرقہ بندی ایک طرف مقدس ہو کر ابدی بن جاتی ہے۔ دوسری طرف خدا کا حکم بن کر دوسروں کے خلاف نفرت اور جارحیت کا اجازت نامہ بھی۔