slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 20 من سورة سُورَةُ المَائـِدَةِ

Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِۦ يَٰقَوْمِ ٱذْكُرُوا۟ نِعْمَةَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنۢبِيَآءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًۭا وَءَاتَىٰكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًۭا مِّنَ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴾

“AND, LO, Moses said unto his people:" O my people! Remember the blessings which God bestowed upon you when he raised up prophets among you, and made you your own masters, and granted unto you [favours] such as He had not granted to anyone else in the world.”

📝 التفسير:

اللہ کا یہ طریقہ ہے کہ وہ اپنے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے کسی گروہ کو چن لیتا ہے۔ اس گروہ کے اندر وہ اپنے پیغمبر اور اپنی کتاب بھیجتا ہے اور ا س کو مامور کرتا ہے کہ وہ اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائے۔ جس طرح وحی ایک خاص شخص پر اترتی ہے اسی طرح وحی کا حامل بھی ایک خاص گروہ کو بنایا جاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ خاص حیثیت بنی اسرائیل کو حاصل تھی اور نبی آخر الزماں کے بعد امت محمدی اس خصوصی منصب پر مامور ہے۔ اللہ کو جس طرح یہ مطلوب ہے کہ کوئی قوم اس کے دین کی نمائندگی کرے۔ اسی طرح اس کو یہ بھی مطلوب هےکہ جو قوم اس کے دین کی نمائندہ ہو وہ دنیا میں باعزت اور سربلند ہو تاکہ لوگوں پر اس بات کا مظاہرہ ہوسکے کہ قیامت کے بعد جو نیا اور ابدی عالم بنے گا اس میں ہر قسم کی سرفرازیاں صرف اہل حق کو حاصل ہوں گی۔ باقی لوگ مغلوب کرکے خدا کی رحمتوں سے دور پھینک ديے جائیں گے۔ تاہم اس گروہ کو یہ دنیوی انعام یک طرفہ طورپر نہیں دیاجاتا۔ اس کے لیے اس کو استحقاق کے امتحان میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ اس کو عملی طورپر یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ پر اعتماد کرنے والا اور صبر کی حد تک اس کی مرضی پر قائم رہنے والا ہے۔ بنی اسرائیل جب تک اس معیار پر قائم رہے ان کو خدا نے ان کی حریف قوموں پر غالب کیا۔ حتی کہ ایک زمانہ تک وہ اپنے وقت کی مہذب دنیا میں سب سے زیادہ سربلند حیثیت رکھتے تھے۔ مگر حضرت موسیٰ تشریف لائے تو بنی اسرائیل پر زوال آچکا تھا۔ امتحان کے وقت ان کی اکثریت اعتماد علی اللہ اور صبر کا ثبوت دینے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ حتی کہ ان کا ایک طبقہ اللہ اور اس کے رسول کے سامنے گستاخی کرنے لگا۔ ان کے دل میں اللہ سے بھی زیادہ دنیا کی طاقت ور قوموں کا ڈر سمایا ہوا تھا — جب خدا کا کوئی نمائندہ گروہ خدا کے کام کے لیے قربانی نہ دے تو گویاکہ وہ چاہتا ہے کہ خدا خود زمین پر اترے اور اپنے دین کا کام خود انجام دے، خواہ وہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں کی طرح اس بات کو زبان سے کہہ دے یا دوسرے لوگوں کی طرح زبان سے نہ کہے بلکہ صرف اپنے عمل سے اس کو ظاہر کرے۔