Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَطَوَّعَتْ لَهُۥ نَفْسُهُۥ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُۥ فَأَصْبَحَ مِنَ ٱلْخَٰسِرِينَ ﴾
“But the other's passion drove him to slaying his brother; and he slew him: and thus he became one of the lost.”
دنیا میں جو کچھ کسی کو ملتا ہے خدا کی طرف سے ملتا ہے۔ اس لیے کسی کو اچھے حال میں دیکھ کر جلنا اور اس کے نقصان کے درپے ہونا گویا خدا کے منصوبہ کو باطل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ ایسا آدمی اگٰرچه موجودہ امتحان کی دنیا میں ایک حد تک عمل کرنے کا موقع پاتا ہے۔ مگر خدا کی نظر میں وہ بدترین مجرم ہے۔ ہابیل نے اپنے بڑے بھائی کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی۔ اس کے بعد اس کے دل میں جھجھک پیدا ہوئی۔ اس کو محسوس ہوا کہ وہ واقعی بلا سبب اپنے بھائی کو مار ڈالنا چاہتا ہے۔ مگر اس کا حسد کا جذبہ ٹھنڈا نہ ہوسکا۔ اس نے اپنے ذہن میں ایسے عذرات گھڑ لیے جو اس کے لیے اپنے بھائی کے قتل کو جائز ثابت کرسکیں۔ اس کی اندرونی کش مکش نے بالآخر خود ساختہ توجیہات میں اپنے لیے تسکین تلاش کرلی اور اس نے اپنے بھائی کو مار ڈالا — ضمیر کی آواز خدا کی آواز ہے۔ ضمیر کے اندر کسی عمل کے بارے میں سوال پیدا ہونا آدمی کا امتحان کے میدان میں کھڑا ہونا ہے۔ اگر آدمی اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہے تو وہ کامیاب ہوا۔ اور اگر اس نے جھوٹے الفاظ کا سہارا لے کر ضمیر کی آواز کو دبا دیا تو وہ ناکام ہوگیا۔ حدیث میں ہے کہ زیادتی اور قطع رحم ایسے گناہ ہیں کہ ان کی سزا اسی موجودہ دنیا سے شروع ہوجاتی ہے (مَا مِنْ ذَنْبٍ أَحْرَى أَنْ يُعَجِّلَ اللهُ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ مَعَ مَا يُؤَخَّرُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ، مِنْ بَغْيٍ، أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ )مسند احمد، حديث نمبر 20374۔ قابیل نے اپنے بھائی کے ساتھ جو ناحق ظلم کیا تھا اس کی سزا نہ صرف اس كو آخرت میں ملے گي بلکہ اسی دنیا سے اس کا انجام شروع ہوگیا۔ مجاہد اور جبیر تابعی سے منقول ہے کہ قتل کے بعد قابیل کا یہ حال ہوا کہ اس کی پنڈلی اس کی ران سے چپک گئی۔ وہ بے یارو مددگار زمین پر پڑا رہتا، یہاں تک کہ اسی حال میں ذلّت اور تکلیف کے ساتھ مرگیا (ابن کثیر) قابیل کو کوّے کے ذریعہ یہ تعلیم دی گئی کہ وہ لاش کو زمین کے نیچے دفن کردے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ انسان فطرت کے راستے کو جاننے کے معاملہ میں جانور سے بھی زیادہ کم عقل ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ اپنے جذبات کے پیچھے چلتا ہے تو اس سے زیادہ ظالم اور کوئی نہیں۔ نیز اس میں اس حقیقت کی طرف بھی لطیف اشارہ ہے کہ جرم سے پہلے اگر آدمی جرم کے ارادہ کو اپنے سینے میں دفن کردے تو اس کو شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ دل کے احساس کو دل کے اندر دبائے، اس کو دل سے باہر آکر واقعہ نہ بننے دے۔ برے احساس کو دل کے باہر نکالنے سے پہلے تو صرف احساس کو دفن کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر اس نے ا س کو باہر نکالا تو پھر ایک زندہ انسان کی ’’لاش‘‘ کو دفن کرنے کا مسئلہ اس کے لیے پیدا ہوجائے گا جو دفن ہو کر بھی خدا کے یہاں دفن نہیں ہوتا۔