Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ يَسْـَٔلُونَكَ مَاذَآ أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ ٱلْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ ٱللَّهُ ۖ فَكُلُوا۟ مِمَّآ أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَٱذْكُرُوا۟ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ ﴾
“They will ask thee as to what is lawful to them. Say: "Lawful to you are all the good things of life." And as for those hunting animals which you train by imparting to them something of the knowledge that God has imparted to yourselves-eat of what they seize for you, but mention God's name over it. and remain conscious of God: verily, God is swift in reckoning.”
وہ تمام چیزیں جن کو فطرت کی نگاہ پاک اور ستھرا محسوس کرتی ہے۔ اور وہ تمام جانور جو اپنی سرشت کے لحاظ سے انسان کی سرشت سے مناسبت رکھتے ہیں انسان کے لیے حلال ہیں۔ البتہ یہ شرط ہے کہ خارجی سبب سے ان کے اندر کوئی شرعی یا طبی خرابي نہ پیدا ہوگئي ہو۔ تاہم اس اصول کو انسان محض اپنی عقل سے پوری طرح متعین نہیں کرسکتا۔ اس لیے ا س کو تعین کے ساتھ بھی بیان کردیا گیا۔ سدھائے ہوئے جانور کا شکار بھی اسی لیے حلال ہے کہ وہ شکار کو اپنے مالک کے لیے پکڑ کر رکھتا ہے۔ گویا اس نے آدمی کی خو سیکھ لی۔ ایسا جانور گویا شکار کے معاملے میں خود آدمی کا قائم مقام بن گیا۔ حلال وحرام کا قانون خواہ کتنی هي تفصیل کے ساتھ بتا دیا جائے بالآخر آدمی کا اپنا ارادہ ہی ہے جو اس کو کسی چیز سے روکتا ہے اور کسی چیز کی طرف لے جاتا ہے۔ آدمی کے اوپر اصل نگراں قانون کی دفعات نہیں بلکہ وہ خود ہے۔ اگر آدمی خود نہ چاہے تو قانون کو مانتے ہوئے وہ اس سے فرار کی راہیں تلاش کرلے گا۔ یہ صرف اللہ کا خوف ہے جو آدمی کو پابند کرتا ہے کہ وہ قانون کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ ملحوظ رکھے۔ اسی لیے حرام وحلال کا قانون بتاتے ہوئے کہاگیا اللہ سے ڈرو، اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ مسلمان عورت کے لیے کسی حال میں جائز نہیں کہ وہ غیر مسلم مرد سے نکاح کرلے۔ مگر مسلمان مردوں کو مخصوص شرائط کے تحت اجازت دی گئی ہے کہ وہ اہل کتاب عورتوں کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں۔ اس گنجائش کی حکمت یہ ہے کہ عورت فطرۃً تاثر پذیر مزاج رکھتی ہے۔ اس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ عملی زندگی میں آنے کے بعد اپنے مسلم شوہر اور مسلم معاشرہ کا اثر قبول کرلے اور اس طرح نکاح اس کے لیے اسلام میں داخلہ کا ذریعہ بن جائے۔ ’’جو شخص ایمان سے انکار کرے تو اس کا عمل ضائع ہوگیا‘‘، یعنی ایمان کے بغیر عمل کی کوئی حقیقت نہیں۔ عمل وہی ہے جو خالص اللہ کے لیے کیا جائے۔ جو عمل اللہ کے لیے نہ ہو وہ خود اپنے لیے ہوتا ہے۔ پھر اپنی خاطر كيے ہوئے عمل کی قیمت اللہ کیوں دے گا۔