slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 41 من سورة سُورَةُ المَائـِدَةِ

Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ ۞ يَٰٓأَيُّهَا ٱلرَّسُولُ لَا يَحْزُنكَ ٱلَّذِينَ يُسَٰرِعُونَ فِى ٱلْكُفْرِ مِنَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ ءَامَنَّا بِأَفْوَٰهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ ۛ وَمِنَ ٱلَّذِينَ هَادُوا۟ ۛ سَمَّٰعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّٰعُونَ لِقَوْمٍ ءَاخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ ۖ يُحَرِّفُونَ ٱلْكَلِمَ مِنۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهِۦ ۖ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَٱحْذَرُوا۟ ۚ وَمَن يُرِدِ ٱللَّهُ فِتْنَتَهُۥ فَلَن تَمْلِكَ لَهُۥ مِنَ ٱللَّهِ شَيْـًٔا ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ لَمْ يُرِدِ ٱللَّهُ أَن يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ ۚ لَهُمْ فِى ٱلدُّنْيَا خِزْىٌۭ ۖ وَلَهُمْ فِى ٱلْءَاخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌۭ ﴾

“O APOSTLE! Be not grieved by those who vie with one another in denying the truth: such as those who say with their mouths, "We believe," the while their hearts do not believe; and such of the Jewish faith as eagerly listen to any falsehood, eagerly listen to other people without having come to thee [for enlightenment]. They distort the meaning of the [revealed] words, taking them out of their context, saying [to themselves], "If such-and-such [teaching] is vouchsafed unto you, accept it; but if it is not vouchsafed unto you, be on your guard!" [Be not grieved by them-] for if God wills anyone to be tempted to evil, thou canst in no wise prevail with God in his behalf. It is they whose hearts God is not willing to cleanse. Theirs shall be ignominy in this world, and awesome suffering in the life to come-”

📝 التفسير:

مدینہ میں اندرونی طورپر دو قسم کے لوگ اسلامی دعوت کے مخالفت کررہے تھے۔ ایک منافقین، دوسرے یہود۔ منافقین وہ لوگ تھے جو ظاہری اور نمائشی اسلام کو لیے ہوئے تھے۔ سچے اسلام کی دعوت میں ان کو اپنے اغراض ومفادات پر زد پڑتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ یہود وہ لوگ تھے جو مذہب کی نمائندگی کی گدیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کو محسوس ہوتا تھا کہ اسلامی دعوت ان کو ان کے برتری کے مقام سے نیچے اتار رہی ہے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ سچے اسلام کی دعوت کو اپنا مشترک دشمن سمجھتے تھے۔ اس لیے اسلام کے خلاف مہم چلانے میں دونوں ایک ہوگئے۔ ان کے ’’بڑے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ اس لیے وہ خود نہ آتے۔ البتہ ان کے ’’چھوٹے‘‘ اس پر لگے ہوئے تھے کہ وہ آپ کی باتوں کوسنیں اور ا ن کو اپنے بڑوں تک پہنچائیں۔ پھر یہ لوگ اس کو الٹے معنی پہناتے اور آپ کو اور آپ کی تحریک کو بدنام کرتے۔ ان کی سرکشی نے ان کو ایسا ڈھیٹ بنا دیا تھا کہ وہ اللہ کے کلام کو اس کے موقع ومحل سے ہٹا کر اس سے اپنا مفیدِ مطلب مفہوم نکالنے سے بھی نہ ڈرتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے کو خدا اور رسول کے تابع نہیں کرتے۔ بلکہ ان کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ جو بات اپنے ذوق کے مطابق ہو اس کو لے لو اور جو بات ذوق کے مطابق نہ ہو اس کو چھوڑ دو۔ یہ مزاج کسی آدمی کے لیے سخت فتنہ ہے۔ جن لوگوںکا یہ حال ہو کہ وہ حق کے مقابلہ میں مفاد اور مصلحت کو ترجیح دیں، جو ہر حال میں اپنے کو بڑائی کے مقام پر دیکھنا چاہیں، جو حق کو زیر کرنے کے لیے اس کے خلاف تخریبی سازشیں کریں، حتی کہ اپنے عمل کو جائز ثابت کرنے کے لیے خدا کے کلام کو بدل ڈالیں، ایسے لوگوں کی نفسیات بالآخر یہ ہوجاتی ہے کہ وہ حق کو قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ انھوںنے خدا کا ساتھ چھوڑا، اس لیے خدا نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ایسے لوگ خدا کی توفیق سے محروم ہو کر باطل مشغلوں میں لگے رہتے ہیں، یہاں تک کہ آگ کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ اللہ کا جو بندہ اللہ کے سچے دین کا پیغام لے کر اٹھا ہو اس کو مخالفتوں کی وجہ سے بے ہمت نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے لوگوں کی سرگرمیاں حقیقۃً داعی کے خلاف نہیں بلکہ خدا کے خلاف ہیں۔ اس لیے وہ کبھی کامیاب نہیںہوسکتیں۔ دعوتی عمل سے اللہ کو جو چیز مطلوب ہے وہ صرف یہ کہ اصل بات سے بخوبی طورپر لوگوں کو آگاہ کردیا جائے۔ اور یہ کام اللہ کی مدد سے لازماً اپنی تکمیل تک پہنچ کر رہتا ہے۔