Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِندَهُمُ ٱلتَّوْرَىٰةُ فِيهَا حُكْمُ ٱللَّهِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِنۢ بَعْدِ ذَٰلِكَ ۚ وَمَآ أُو۟لَٰٓئِكَ بِٱلْمُؤْمِنِينَ ﴾
“But how is it that they ask thee for judgment seeing that they have the Torah, containing God's injunctions - and thereafter turn away [from thy judgment]? Such as these, then, are no [true] believers.”
حرام (سُحت) سے مراد رشوت ہے۔ رشوت کی ایک عام شکل وہ ہے جو براہِ راست اسی نام پر لی جاتی ہے۔ چنانچہ یہودی علماء میں ایسے لوگ تھے جو رشوت لے کر غلط مسائل بتایا کرتے تھے۔ تاہم رشوت کی ایک اور صورت وہ ہے جس میں براہِ راست لین دین نہیں ہوتا مگر وہ تمام رشوتوں میں زیادہ بڑی اور زیادہ قبیح رشوت ہوتی ہے۔ یہ ہے دین کو عوامی پسند کے مطابق بنا کر پیش کرنا تاکہ عوام کے درمیان مقبولیت ہو، لوگوں کا اعزاز واکرام ملے، لوگوں کے چندے اور نذرانے وصول ہوتے رہیں۔ دین کو اس کی بے آمیز صورت میں پیش کرنا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی عوام کے اندر نامقبول ہوجائے۔ اس کے برعکس دین کو اگر ایسی صورت میں پیش کیا جائے کہ زندگی میں کوئی حقیقی تبدیلی بھی نہ کرنا پڑے اور آدمی کو دین بھی حاصل رہے تو ایسے دین کے گرد بہت جلد بھیڑ کی بھیڑ اكٹھا ہوجاتی ہے — وہ دین جس میں اپنی دنیا پرستانہ زندگی کو بدلے بغیر کچھ سستے اعمال کے ذریعہ جنت مل رہی ہو۔ وہ دین جو قومی اور مادی ہنگامہ آرائیوں کو دینی جواز عطا کرتا ہو۔ وہ دین جس میں یہ موقع ہو کہ آدمی اپنی جاہ پسندی کے لیے سرگرم ہو، پھر بھی وہ جو کچھ کرے سب دین کے خانہ میں لکھا جاتا رہے۔ جو لوگ اس قسم کا دین پیش کریں وہ بہت جلد عوام کے اندر محبوبیت کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ یہود کے قائدین اسی قسم کا دین چلا کر عوام کا مرجع بنے ہوئے تھے۔ وہ عوام کو ان کا پسندیدہ دین پیش کررہے تھے اور عوام اس کے معاوضہ میں ان کو مالی تعاون سے لے کر اعزاز واکرام تک ہر چیز نثار کررہے تھے۔ ایسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچے دین کی آواز بلند کرنا ان کو ناقابلِ برداشت معلوم ہوا۔ کیوں کہ یہ ان کے مفادات کے ڈھانچہ کو توڑنے کے ہم معنی تھا، آپ سے ان کو اتنی ضد ہوگئی کہ آپ کے متعلق کسی اچھی خبر سے ان کو کوئی دل چسپی نہ رہی۔ البتہ اگر وہ آپ کے بارے میں کوئی بری خبر سنتے تو اس میں خوب دل چسپی لیتے اور اس میں اضافہ کرکے اس کو پھیلاتے۔ جن لوگوں میں اس قسم کا بگاڑ آجائے ان کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ اگر وہ دینی فیصلہ لینے کی طرف رجوع بھی ہوتے ہیں تو اس امید میں کہ فیصلہ اپنی خواہش کے مطابق ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ جانتے ہوئے کہ یہ خدا ورسول کا فیصلہ ہے اس کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ ایسا کرنا محض ایک فیصلہ کو نہ ماننا نہیں ہے بلکہ خود ایمان واسلام کا انکار کرنا ہے۔