Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَآ أَنَّ ٱلنَّفْسَ بِٱلنَّفْسِ وَٱلْعَيْنَ بِٱلْعَيْنِ وَٱلْأَنفَ بِٱلْأَنفِ وَٱلْأُذُنَ بِٱلْأُذُنِ وَٱلسِّنَّ بِٱلسِّنِّ وَٱلْجُرُوحَ قِصَاصٌۭ ۚ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِۦ فَهُوَ كَفَّارَةٌۭ لَّهُۥ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّٰلِمُونَ ﴾
“And We ordained for them in that [Torah]: A life for a life, and an eye for an eye, and a nose for a nose, and an ear for an ear, and a tooth for a tooth, and a [similar] retribution for wounds; but he who shall forgo it out of charity will atone thereby for some of his past sins. And they who do not judge in accordance with what God has revealed - they, they are the evildoers!,”
خدا کی کتاب اس لیے آتی ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی ابدی فلاح کی راہ دکھائے۔ خواہش پرستی کے اندھیرے سے نکال کر ان کو حق پرستی کی روشنی میں لائے۔ جو خدا سے ڈرنے والے ہیں وہ خدا کی کتاب کو خدا اور بندے کے درمیان مقدس عہد سمجھتے ہیں جس میں اپنی طرف سے کمی یا زیادتی جائز نہ ہو۔ وہ اس کی تعمیل اس طرح کرتے ہیں جس طرح کسی کے پاس کوئی امانت ہو اور وہ ٹھیک ٹھیک اس کی ادائیگی کرے۔ اللہ کی کتاب بندوں کے حق میں اللہ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ضرورت ہوتی ہے کہ زندگی کے معاملات میں اسی کی ہدایت پر چلا جائے اور باہمی نزاعات میں اسی کے احکام کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ خدا کی کتاب کو اگریہ حاکمانہ حیثیت نہ دی جائے بلکہ اپنے معاملات ونزاعات کو اپنی دنیوی مصلحتوں کے تابع رکھا جائے تو یہ خدا کی کتاب سے انکار کے ہم معنی ہوگا، خواہ تبرک کے طور پر اس کا کتنا ہی زیادہ ظاہری احترام کیا جاتا ہو۔ جو لوگ اپنے كومسلم کہیں مگر ان کا حال یہ ہو کہ وہ اختیار اور آزادی رکھتے ہوئے بھی اپنے معاملات کا فیصلہ اللہ کی کتاب کے مطابق نہ کریں بلکہ خواہشوں کی شریعت پر چلیں، وہ اللہ کی نظر میں کافر اور ظالم اور فاسق ہیں۔ وہ خدا کی حاکمانہ حیثیت کا انکار کرنے والے ہیں، وہ حق کے تلف کرنے والے ہیں، وہ اطاعت خداوندی کے عہد سے نکل جانے والے ہیں۔ حکم شریعت کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کے بعد آدمی کی کوئی حیثیت خدا کے یہاں باقی نہیں رہتی۔ قصاص کے سلسلے میں شریعت کا تقاضا ہے کہ کسی کی حیثیت کی پروا کیے بغیر اس کا نفاذ کیاجائے۔ تاہم بعض اوقات آدمی کی جارحیت اس کی شرپسندی کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ وقتی جذبہ کے تحت صادر ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں اگر مجروح جارح کو معاف کردے تو یہ اس کی طرف سے جارح کے لیے ایک صدقہ ہوگا اور سماج میں وسعت ظرف کی فضا پیدا کرنے کا ذریعہ۔